ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹھان لی ہے کہ اقتدار چھوڑنے سے پہلے وہ ٹرمپ کی جھولی میں روس یوکرین جنگ کی صورت میں ایک مزید شدت سے بھڑکتی ہوئی آگ ڈالیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مبینہ طور پر یوکرین کو روس کے خلاف طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کی اجازت دے دی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یوکرین کی افواج پہلی بار روسی حدود میں امریکی ساختہ میزائل فائر کر سکیں گی۔ امریکا کی اس حرکت پر روس مزید بھڑک چکا ہے۔ لیکن امریکا نے کیف پر روس کے خلاف طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال پر پابندی عائد کیوں کی تھی اور اب اچانک اجازت کیوں دی؟
امریکی انتظامیہ کی جانب سے میزائلوں کے استعمال اجازت دئے جانے کا یہ اقدام جو بائیڈن کے دفتر چھوڑنے اور بڑے روسی میزائل اور ڈرون حملوں کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا، جس نے کریملن کا غصہ مزید بھڑکا دیا اور اس نے واشنگٹن پر ”جلتی پر تیل ڈالنے“ کا الزام لگایا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ امریکی انتظامیہ کے اس فیصلے کا مطلب تنازعے میں واشنگٹن کی براہ راست شمولیت ہوگا، جوکہ ستمبر میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے ظاہر کیے گئے اسی طرح کے جذبات کا تسلسل ہے۔
دراصل امریکا کی جانب سے یہ بڑا فیصلہ روس کی جانب سے اپنی افواج میں اضافے کے اقدام کے تحت شمالی کوریائی فوجیوں کی شمولیت اور شمالی کوریا سے مبینہ طور پر حاصل کئے گئے اسلحے کے باعث کیا گیا ہے۔ ایک طرف روس مسلسل اپنی طاقت بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ وہ روس یوکرین تنازعے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اقدامات کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو روس کا حامی سمجھا جاتا ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ٹرمپ اقتدار میں آںے کے بعد روس کی حمایت کریں گے اور یوکرین کو اس کا نقصان ہوگا۔
اسی لئے بائیڈن انتظامیہ نے ممکنہ طور پر فیصلہ کیا کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آںے سے پہلے یوکرین کو طاقت فراہم کردی جائے۔
یوکرین طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹیکٹیکل میزائلوں کا استعمال روسی علاقے کے اندر موجود فوجی سازوسامان کو نشانہ بنانے اور کرسک میں روسی اور شمالی کوریا کے فوجیوں پر حملہ کرنے کے لیے کر سکتا ہے، جوکہ یوکرین کی سرحد پر واقع ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، امریکی حکام نے کہا ہے کہ کیف کا کرسک کے علاقے کے ارد گرد روس پر حملہ کرنے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔
یوکرائنی فوجیوں نے اگست میں شروع کی گئی دراندازی کے دوران کرسک میں تقریباً 1,000 مربع کلومیٹر (386 مربع میل) پر پھیلی 28 بستیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ شمالی کوریا کے فوجی مبینہ طور پر کرسک کے قریب مرکوز ہیں۔
کیف کو طویل فاصلے کی صلاحیتیں دینے کا فیصلہ مستقبل کے مذاکرات میں یوکرین کو مزید فائدہ پہنچانا ہو سکتا ہے۔
امریکا نے مارچ میں خفیہ طور پر میزائل یوکرین کو بھیجے تھے لیکن یوکرین کو انہیں روسی حدود میں حملے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اپریل کے آخر تک، یوکرین نے روس سے الحاق شدہ کریمیا میں دو بار ان میزائلوں کا استعمال کیا تھا۔
واضح رہے کہ برطانیہ اور فرانسبھی یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے اسٹارم شیڈو میزائل فراہم کرچکے ہیں اور ممکنہ طور پر کیف کو روسی حدود میں حملہ کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
”Storm Shadow“ میزائل جسے SCALP بھی کہا جاتا ہے، 250 کلومیٹر (155 میل) دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
فرانسیسی اخبار لے مونڈے نے ملک کے وزیر خارجہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پیرس یوکرین کو روسی حدود میں حملہ کرنے کے لیے اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔
وائٹ ہاؤس اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے کہا، ’ایسا لگتا ہے کہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ میرے والد کو اقتدار ملنے سے پہلے وہ تیسری عالمی جنگ شروع کر دیں‘۔
بیس جنوری کو صدارتی عہدہ سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران بارہا وعدہ کیا کہ وہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کریں گے۔
تو بائیڈن انتظامیہ کا تازہ ترین اقدام کتنا اہم ہے، اور کیا یہ یوکرین کی جنگ میں اضافے کا باعث بنے گا؟
امریکا نے یوکرین کو روس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت روس کے کرسک علاقے میں شمالی کوریا کے فوجیوں کی تعیناتی کے بعد دی، اس علاقے پر اگست میں یوکرینی افواج نے حملہ کیا تھا۔
امریکا، یوکرین اور جنوبی کوریا کے حکام کے مطابق شمالی کوریا کے 12 ہزار فوجیوں کو روس بھیجا گیا ہے۔ انہوں نے پیانگ یانگ پر ماسکو کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کئی مہینوں سے اپنے مغربی اتحادیوں بشمول امریکا اور برطانیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ روس کے خلاف میزائلوں کے استعمال کی اجازت دیں کیونکہ ماسکو کی افواج مشرقی یوکرین میں سست لیکن مستحکم کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔
بائیڈن نے یوکرین کو میزائلوں کے استعمال کی اجازت دینے کا فیصلہ اپنی صدارت میں صرف نو ہفتے رہ جانے کے دوران کیا ہے، کیونکہ ان کے جانشین ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جنگ کے فوری خاتمے کے لیے بات چیت کریں گے، جس سے اس بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ آیا یوکرین کا سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والا ساتھی امریکا اسے فوجی مدد بھیجنا جاری رکھے گا۔
حال ہی میں ایسے اشارے ملے تھے کہ امریکا یوکرین کو میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے دے گا۔ ستمبر میں، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور ان کے برطانیہ کے ہم منصب، خارجہ سیکرٹری ڈیوڈ لیمی نے کیف کا دورہ کیا اور زیلنسکی سے ملاقات کی۔ ان سے ملنے کے لیے حکام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، زیلنسکی نے اپنے ایک اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا، ’یہ ضروری ہے کہ یوکرین کے دلائل کو سنا جائے۔ اس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار بھی شامل ہیں۔‘
اس دورے سے ایک دن پہلے، بلنکن نے لندن میں صحافیوں کو بتایا کہ وہ اور لیمی اس معاملے لو ’بہت توجہ سے سنیں گے‘ اور واپس رپورٹ کریں گے۔ اسی دن، بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا، ’ہم ابھی اس پر کام کر رہے ہیں۔‘
امریکہ کی طرف سے یوکرین کو فراہم کیے گئے میزائلوں کو آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (ATACMS) کہا جاتا ہے۔ ان کی رینج 300 کلومیٹر (190 میل) ہے اور یہ پہلی بار 1980 کی دہائی میں تیار کیے گئے تھے۔
امریکی دفاعی صنعت کار لاک ہیڈ مارٹن کے بنائے گئے ATACMS کو HIMARS لانچرز کا استعمال کرتے ہوئے لانچ کیا جا سکتا ہے۔ یہ میزائل امریکا کے بنائے ہوئے M270 ملٹیپل لانچ راکٹ سسٹم کے ذریعے بھی لانچ کیے جا سکتے ہیں، جسے برطانیہ نے 2022 میں یوکرین کو بھیجا ہے۔
طویل رینج کے ATACMS بھیجنے سے پہلے، امریکا نے اکتوبر 2023 میں یوکرین کو ایک مختصر رینج والا ورژن بھیجا تھا جو 165 کلومیٹر (100 میل) تک فائر کرنے کے قابل تھا۔
زیلنسکی نے اتوار کو ایک شام کے خطاب میں کہا، ’آج میڈیا میں بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مناسب اقدامات کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’ حملےالفاظ سے نہیں ہوتے، ایسی باتوں کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ میزائل خود بولیں گے’۔
دوسری جانب ماسکو نے کہا کہ میزائل کا فیصلہ کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے گا۔
روسی ترجمان پیسکوف نے کہا کہ ’اگر ایسا کوئی فیصلہ واقعتاً وضع کیا گیا اور کیف حکومت کو اجازت دی گئی ہے تو یہ کشیدگی کا ایک نیا دور ہے اور اس تنازعے میں امریکا کی شمولیت کے معیار کے لحاظ سے ایک نئی صورتحال ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ظاہر ہے کہ واشنگٹن میں سبکدوش ہونے والی انتظامیہ آگ میں ایندھن ڈالنے اور اس تنازعے کے گرد تناؤ کو ہوا دینے کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘
روسی قانون ساز ماریا بوٹینا نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس سے عالمی تنازع شروع ہونے کا خطرہ ہوگا۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ ’مجھے پوری امید ہے کہ ٹرمپ اس فیصلے پر قابو پالیں گے کیونکہ وہ تیسری جنگ عظیم کے آغاز کا خطرہ مول لے رہے ہیں، جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔‘