قطب شمالی انیسویں صدی سے اب تک دنیا کے سب سے بڑے ملک روس کی طرف کھسکتا رہا ہے۔ اب اس قدرتی عمل کی رفتار کم ہوچکی ہے تاہم قطلب شمالی کے یوں کھسکتے رہنے سے اسمارٹ فونز کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی دنیا کے قائدین اور جغرافیہ کے ماہرین کے لیے یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جس سے متعلق امور کا وہ ایک مدت سے جائزہ لے رہے ہیں۔ قطب شمالی کا روس کی طرف پراسرار سفر مستقل جاری رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ بھی ہوسکتا ہے آپ کے اسمارٹ فون کام کرنے سے انکار کردیں۔
سائنس دان قطب شمالی کے حوالے سے بہت کچھ سوچتے آئے ہیں اور اب بھی اُن کی سمجھ میں بہت کچھ نہیں آسکا ہے۔ قطب نما کی سُوئی شمال ہی کی طرف اشارہ کیوں کرتی ہے؟ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک روس کی طرف قطب شمالی کا سفر انیسویں صدی سے اب تک متواتر رہا ہے۔
ورلڈ میگنیٹک ماڈل کے مطابق 2020 میں قطب شمالی کی روس کی طرف منتقلی کی رفتار 10 میل سالانہ تھی جو اب 15 میل سالانہ ہوچکی ہے۔
برٹش جیولوجیکل سروے کے ڈاکٹر سیارن بیگن نے ڈیلی میل کو بتایا کہ مقناطیسی قطب 1500 عیسوی کے بعد سے معمولی رفتار سے کینیڈا کی طرف منتقل ہوتا رہا ہے۔ اب 20 برس سے یہ روس کے علاقے سائبیریا کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
پہلے رفتار زیادہ تھی مگر 5 برس کے دوران رفتار گھٹی ہے۔ سالانہ 50 کے بجائے اب یہ سالانہ 40 کلومیٹر کی رفتار سے کھسک رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں قطب جنوبی کے کھسکنے کی رفتار خاصی کم رہی ہے۔ سائنس اس فرق کی توجیہ کرنے سے قاصر ہیں۔