کیا ایران چپکے چپکے ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے؟ یہ سوال امریکا اور یورپ میں بہت سے قائدین اور حکام کے ذہنوں میں کُلبلاتا رہا ہے۔ ایران کا موقف رہا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ردِ جارحیت کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا ہونا بنیادی شرط ہے۔
امریکا اور یورپ یہ جاننے کے لیے بے تاب رہے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بناچکا ہے یا نہیں اور اگر نہیں بنائے ہیں تو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت کے کس حد تک نزدیک پہنچ کا ہے۔
اسرائیل کا موقف رہا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگا۔
اب پھر یہ سوال اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ پر کہاں تک جاچکا ہے۔ گزشتہ ماہ اسرائیل نے ایران پر جوابی حملے میں کئی اہم عسکری اور تحقیقی تنصیبات کو تباہ کیا تھا۔
اب کہا جارہا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق تحقیقی مرکز بھی اسرائیلی حملوں کی زد میں آیا تھا۔ اس تحقیقی مرکز کو ایرانی حکومت نے گزشتہ برس ہی فعال کیا تھا اور وہاں غیر معمولی نوعیت کی سرگرمیاں جاری تھیں۔
اسرائیلی طیاروں نے جس تحقیقی مرکز کو نقصان پہنچایا ہے وہ کبھی ایٹمی ہتھیار بنانے کے ایرانی پروگرام کا حصہ تھا۔ 2003 میں یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ ایران کے وزیرِخارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا مگر امریکا اور اسرائیل یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔