غزہ کی صورتِ حال اور اسرائیلی فوج کی سفاکی کے حوالے سے یورپی یونین پر اخلاقی دباؤ میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپی یونین اس حوالے سے اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی طرف بھی جاسکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تیاریاں شروع بھی کردی گئی ہیں۔
اسرائیلی فوج اور سیاسی قیادت کے ہاتھوں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملے پر یورپی یونین کے قائدین اقتصادی پابندیوں کے امکان کے حوالے سے رابطوں میں ہے۔
یورپی یونین کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ غزہ کے باشندوں پر اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے حوالے سے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے امکان پر مشاورت کے لیے 18 نومبر کو اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اسرائیل پر پابندی لگانے اور مذاکرات روکنے کے حوالے سے مشاورت کریں گے۔ یہ بات یورپی یونین کی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے کیا ہے۔
جوزپ بوریل نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ ہم ایک سال تک اسرائیلی حکام سے اپیلیں کرتے رہے کہ وہ غزہ کے معاملے میں بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے۔ اب اسرائیل سے تعاون جاری نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
یورپی یونین کے ارکان اب اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے آپشن پر غور کے لیے مجبور ہیں۔ وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے اجلاس میں یورپی یونین کونسل اقتصادی پابندیوں کے امکان کا جائزہ لے گی۔
جوزپ بوریل نے لکھا ہے کہ اسرائیلی فوج حماس کو ختم کرنے کے نام پر عام فلسطینیوں کو نشانہ بنارہی ہے اور قتلِ عام اور نسلی تطہیر کی سطح پر مظالم ڈھارہی ہے۔
دوسری طرف میڈیا ورکرز کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ اب تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 130 میڈیا ورکرز کی جان جاچکی ہے۔
یورپی یونین کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ لبنان میں بھی اسرائیلی فوج نے بنیادی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔
غزہ میں بربریت پر عالمی قوتوں کی خاموشی اتنی ہی قابل مذمت ہے جتنے اسرائیلی مظالم، وزیراعظم
ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ غرب اردن میں اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں کو اُن کی زمینوں سے بے دخل کر رہے ہیں۔