ڈسکہ میں سسرالیوں کے ہاتھوں قتل ہوئی زہرہ قدیر کے کیس میں گرفتار ملزمان کو کل عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ زہرہ کی ایک نند، اس کا بیٹا اور دو رشتہ دار زیر حراست ہیں، جبکہ زیر تحویل افراد کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔
سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے زہرہ قتل کیس میں پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے مزید چار افراد کو حراست میں لے لیا، پولیس پہلے بھی چار ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے۔
پولیس کے مطابق زہرہ کی ساس ملزمہ صغراں کی ایک اور بیٹی صبا اور اس کے بیٹے قاسم کو پولیس نے حراست میں لیا ہے، جبکہ دو رشتے دار شبیر راجپوت اور اذان علی کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس نے صغراں بی بی، اس کی بیٹی یاسمین، نواسے عبداللہ اور رشتے دار نوید کو پہلے ہی گرفتار رکھا ہے، جنہوں نے زہرہ کو قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کر کے نالے میں پھینکنے کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔
پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ میں زہرہ قدیر نامی خاتون کے قتل کا راز افشا ہوا تو پورا علاقہ اس ہولناک واردات سے لرز اٹھا۔
سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں سسرالی کے ہاتھوں قتل ہونے والی زہرہ قدیر کے کیس کی تفتیش جاری ہے، مقتولہ کے خاوند کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا۔
پولیس نے ابتدائی تفتیش میں انکشاف کیا ہے کہ سگی خالہ، اس کی بیٹی، نواسہ اور ایک راشتے دار نے بہو کو قتل کرنے، لاش جلانے اور ٹکڑے کر کے نالے میں بہانے میں کردار ادا کیا ہے۔
پولیس نے مقتولہ کی ساس، نند یاسمین، نند کا بیٹا اور لاہور کے رہائشی نوید نامی ملزم کو گرفتار کر لیا۔ ملزمان نے دوران تفتیش جرم کا اعتراف کر لیا، آلہ قتل اور مقتولہ کے دو موبائل فون پولیس نے تحویل میں لے لیے ہیں۔
زہرہ قدیر کو جب قتل کیا گیا تو وہ نہ صرف ایک بچے کی ماں تھیں بلکہ نو ماہ کی حاملہ بھی تھیں۔
پولیس تفتیش کے مطابق یہ بات سامنے آئی تھی کہ ساس نے پہلے بہو کے کردار پر الزامات لگا کر طلاق دلوانے کی کوشش کی اور ناکامی پر بیٹی یاسمین کے ساتھ مل کر قتل کا منصوبہ بنایا۔
زہرہ قدیر کے والد شبیر احمد کو جب زہرہ کی خیریت سے متعلق تشویش ہوئی تو وہ فوراً اس کے سسرال گئے تاکہ اپنی بیٹی کی خیریت کے بارے میں جان سکیں مگر وہاں پہنچنے پر انھیں زہرہ کی ساس نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔
انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ میں بیٹی کو فون کرتا رہا مگر اس کا فون نہیں مل رہا تھا۔ جس کے بعد میں خود ڈسکہ پہنچ گیا۔
مقتولہ کے والد شبیر احمد نے بتایا کہ بیٹی کے سسرال کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی نے زہرہ کو آوازیں دینا شروع کیں جس پر زہرہ کی نند نے مجھے کہا کہ زہرہ نہیں ہے۔ جب میں نے پوچھا کدھر گئی ہے تو اس نے کہا کہ ہمیں کیا پتا زیور، پیسے وغیرہ لے کر بھاگ گئی ہو گی۔
شبیر احمد کے مطابق میں نے ان سے پوچھا کہ سچ بتاؤ زہرہ کہاں ہے، کیسے اور کیوں بھاگ گئی؟
شبیر احمد نے بتایا کہ وہ نہ صرف زہرہ کے کمرے میں گئے بلکہ گھر کے دیگر کمروں میں بھی اسے تلاش کیا۔ وہاں انھیں ایک غیر معمولی بات محسوس ہوئی اور وہ یہ تھی کہ زہرہ کا اڑھائی سالہ بیٹا بھی گھر پر تھا اور گھر کو بہت زیادہ صاف کیا گیا تھا، فرش دھویا گیا تھا۔
یہ سب دیکھ کر میں مزید پریشان ہوگیا اور میں نے فوراً اپنے بڑے بھائی کو فون کیا اور ساتھ میں مقامی تھانے کے علاوہ 15 پر کال کر دی۔
شبیر احمد کا دعویٰ ہے کہ پولیس کو اطلاع دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی بیٹی کو ماضی میں بھی سسرال میں ایک بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
مقتولہ کے والد نے ڈسکہ کے مقامی تھانے میں زہرہ کے سسرال والوں کے خلاف اس کے اغوا کا پرچہ درج کروایا دیا تھا۔
درج پولیس مقدمے میں کہا گیا کہ دس نومبر کو بیٹی کے فون نمبر پر کالیں کیں مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ سسرال والوں سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ صبح 7 بجے کہیں چلی گئی تھی جبکہ اس کا اڑھائی سالہ بیٹا گھر ہی میں موجود ہے۔
درج مقدمہ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اس سے پہلے بھی زہرہ کو سسرال میں مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس لیے انھیں خوف ہے کہ زہرہ کو اس کی ساس، تین نندوں اور ان کے ایک عزیز نے غائب کر دیا ہے۔
پولیس نے ملزمان کا تین روز جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔
پولیس نے آلہ قتل خریدنے سمیت مختلف مقامات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کرلی ہے، ساتھ ہی ساس اور نند کے بعد نند کے بیٹے اور ایک سہولت کار کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔
ملزمہ صغراں نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ نوید نے لاش کے ٹکڑے کیے اس کام کے لیے اسے آن لائن دس ہزار روپے بھی بھیج دیے تھے، جس سے بازار سے ٹوکہ خریدا گیا تھا، پولیس نے خریداری کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کرلی ہے۔
اس کیس میں زارا کی نند یاسمین، نند کا بیٹا اور لاہور کا رہائشی نوید بھی گرفتار ہیں، ملزمان نے دوران تفتیش جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔