مٹیاری کی یہ چھوٹا سا ہوٹل، جہاں روز شام کے وقت ایک خاص محفل سجتی ہے۔ یہ وہ محفل ہے جہاں الفاظ نہیں، اشارے بولتے ہیں۔ یہ دوست نہ تو بول سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں، مگر ان کے اشارے سب کچھ کہہ دیتے ہیں۔
ہر شام یہ گونگے دوست ہوٹل پر اکٹھے ہوتے ہیں، چائے کی چسکیاں لیتے ہیں اور اپنے دن بھر کے قصے ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ ہوٹل والے بھی ان کے اشارے سمجھ گئے ہیں، اگر کسی کو فل چائے چاہیے ہو تو اس کا اشارہ الگ اور کٹ چاہیے تو اس کا اشارہ الگ ہوتا ہے۔
ایک تو یہ جو اشارے کرتے ہیں نہ تو یہ اشارے ایک رازداری کی بات ہوتی ہے جیسے، یہ ان کی باتیں راز میں ہوتی ہیں۔ کوئی عام آدمی ان کی باتین سمجھتا ہی نہیں ہے۔ حکومت ان پر توجہ دے، ان کی کوئی کوٹہ مقرر کرے، ان کے کوئی وظیفے مقرر کرے۔
ایک نے بتایا کہ ہم پڑھے لکھے ہیں پر حکومت کی جانب سے ہماری کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ نہ ہی ہمیں نوکری ملتی ہے اور نہ ہی ہمارے علاج کے لیے ہمیں کوئی مدد ملتی ہے۔
یہ محفل ایک راز بھری کتاب کی طرح ہوتی ہے جسے ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ان گونگوں کا ہر اشارہ، ایک احساس، ایک کہانی ہے۔
یہ خاموش دوست ہر شام یہاں ہوٹل میں بیٹھ کر اپنی خوشیاں اور غم آپس میں بانٹتے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں کوٹہ کے تحت نوکریاں دی جائیں۔