پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئیر رہنما شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ احتجاج کا یک نکاتی مقصد ہونا چاہئیے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے۔
آج نیوز کے پروگرام ”نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاء“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے اس بات سے انکار کیا کہ پی ٹی آئی کی حالیہ تحریکوں میں سے کوئی تحریک ناکام ہوئی، ’البتہ آخری جو ڈی چوک کا دھرنا تھا وہ دو دن جاری رہ سکا اور اب اس احتجاج کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پہلی دفعہ ہم نے حتمی احتجاج کا اعلان کیا ہے‘۔
ہماری تیاری مکمل ہے اور اس بار حکمت عملی سخت ہوگی، علی امین گنڈا پور
24 نومبر کا احتجاج کتنے دن جاری رہے گا؟ اس سوال کے جواب میں شیر افضل مروت نے کہا کہ ’جب تک نتائج حاصل نہیں ہوتے، یہ یک روزہ بھی ہوسکتا ہے، دس رورہ، سو روزہ یا لامحدود ہوسکتا ہے، کیونکہ اس دفعہ ہم تہیہ کرکے نکلیں گے کہ کسی بھی صورت میں ہم اس وقت تک احتجاج سے دستبردار نہیں ہوں گے جب تک خان کی رہائی ممکن نہیں ہوتی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کے مقاصد کی تعداد کا باقاعدہ اعلان ابھی نہیں ہوا ہے، میں تو گزشتہ دوماہ سے ایک ہی نکتے پر مہم چلا رہا ہوں کہ ہمیں فی الوقت عمران خان کی رہائی درکار ہے۔ میں کوشش کریں گا کہ ہم اس احتجاج کو فی الوقت خان کی رہائی تک محدود رکھیں ، جب خان باہر آجائیں گے تو پھر جو بھی سیاسی یا ملکی مفاد کیلئے مقاصد ہوں گے وہ ہم ان کی قیادت میں ان کی ہدایات کے مطابق احتجاج کریں گے۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ ’میرے خیال میں پارٹی میں کوئی بھی شخص اتنا ظالم نہیں ہے کہ وہ خان کی رہائی پر کمپرومائز کرسکے، یہ سب کی خواہش ہے، یہ احتجاج اور دھرنے کی خواہش پارٹی قیادت کی تھی جس کی خان صاحب نے توثیق کی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو نظر بند رکھ کر اور سوا سال میں جو مظالم ڈھائے گئے اس سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو نقصان پہی پہنچا ہے، عمران خان کے باہر آنے سے کسی کو کوئی نقصان نہیںض ہے لیکن خان جتنے دن نظر بند رہے گا پوری دنیا اور پاکستانی انہی کو اس ظلم کے ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔
عمران خان کیخلاف 62 مقدمات، ایف آئی اے میں 7 انکوائریز چل رہی ہیں، اسلام آباد پولیس
عمران خان کے خلاف نئے مقدمات سامنے آںے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ 116 مقدمے عمران خان کے جیل میں آنے کے بعد بنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً تمام مقدمات میں عمران خان کی ضمانت ہوچکی ہے، بہت سے مقدمات میں ان کی بریت بھی ہوچکی ہے، ان نئے مقدمات کی حیثیت پکوڑے رکھنے والے کاغذ سے زیادہ کی نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ اس بار اگر بالفرض پاکستانی لاکھوں کی تعداد میں احتجاج کیلئے نہیں نکلتے ہیں تو ہمیں کیا فرق پڑے گا؟ ہم تو ایوانوں میں بھی ہیں، خان بلاتنازعہ لیڈر بھی ہے، اس کے بعد پاکستانیوں کی تقدیر میں کیا آئے گا؟ کیا پاکستان کے بعد معیشت کیلئے کوئی روڈ میپ ہے؟ کیا زرداری اور نواز پر قومی کا اعتماد ہے؟
’تمام پارٹی متفق ہے کہ احتجاج کیا جائے‘
خیبرپختونخوا ہے مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کی۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ سیاست میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں، ہم ہر صورت احتجاج کامیاب بنائیں گے، یہ فیصلہ بانی پی ٹی آئی کا ہے، اس لیے تمام پارٹی متفق ہے کہ احتجاج کیا جائے، اگر کسی کو اس تاریخ کے حوالے سے تحفظات ہیں تو ہوسکتے ہیں، پارٹی کا تو یہی فیصلہ ہے کہ احتجاج 24 نومبر کو ہو،اگر کسی کے تحفظات ہیں تو وہ اپنی جگہ ہیں۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ ہمارے احتجاج کا رخ اسلام آباد کی طرف ہوگا، ورکرز مشکل حالات کیلئے تیار ہیں، ہمیں احتجاج کا تجربہ ہے، ورکرز سختی برداشت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں سیاسی مخالفین کو اپنی قوت دکھائی جاتی ہے،ضروری نہیں کہ ہر احتجاج سے 100 فیصد نتائج حاصل ہوں۔
مریم نواز نے سب کو پکڑنے کی ہدایت کی، کیا 10 ہزار کارکنوں کو پکڑیں گے؟ علیمہ خان
انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف اور رانا ثنا کہتے تھے گنڈاپور بندے نہیں نکال سکتا، یہ ایسے ہیں جیسے چھلنی نے کوزے سے کہا کہ تمہارے اندر سوراخ ہے، ان کی حکومت کیسے چل رہی ہے پوری دنیا کو پتہ ہے۔
’بات تو ہمیں ہینڈلرز سے ہی کرنی ہے‘
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ علیمہ خان اگر سیاسی کردار ادا کرتی ہیں تو تشویش کی کیا بات ہے، اگر بانی پی ٹی آئی انہیں کوئی کردار ادا کرنے کا کہتے ہیں تو تشویش کیا ہے، ہم کسی سے بات چیت کیلئے بے چین نہیں رہتے ہیں، بات تو ہمیں ہینڈلرز سے ہی کرنی ہے۔