ایران نے ایٹمی امور سے متعلق اقوامِ متحدہ کے سربراہ سے کہا ہے کہ دھمکائے جانے پر مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ عراق کے وزیرِخارجہ عباس عراقچی نے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی سے بات چیت کی۔ گروسی کا کہنا تھا کہ خطے کی صورتِ حال کے پیشِ نظر لازم ہے کہ ایٹمی معاملات پر ایران سے ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہو۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے وزیرِدفاع اسرائیل کیٹز نے چند روز قبل کہا تھا کہ اسرائیلی حملوں سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایران اپنی ایٹمی تنصیبات کا تحفظ یقینی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کے لیے اپنے اہم ترین اہداف کا حصول آسان ہوگیا۔
گروسی کا کہنا ہے کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات کو کسی صورت نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے مگر ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو اس معاملے میں فری ہینڈ دیں گے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیرِخارجہ عراقچی سے ملاقات ناگزیر تھی۔ عراقچی ایٹمی مذاکرات میں ایران کے مرکزی مذاکرات کار رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں رافیل گروسی نے بتایا کہ عراقچی جن مذاکرات کا حصہ تھے اُنہی کے نتیجے میں ایران نے 2015 میں بڑی طاقتوں کے ساتھ جامع معاہدہ کیا جو تین سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ختم کردیا۔
ایکس پر اپنے بیان میں عباس عراقچی نے کہا کہ آئی اے ای اے کے سربراہ سے ملاقات اہم، برمحل اور براہِ راست تھی۔ ایران اپنے مفادات کے تناظر میں بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم دباؤ یا دھمکی کے تحت بات نہیں کی جائے گی۔
ایٹمی معاہدہ ختم ہونے کے بعد ایران نے بین الاقوامی ادارے سے اپنی کمٹمنٹ کے تحت یورینیم کی افزودگی محدود کردی۔ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران نے افزودہ یورینیم کا خاصا ذخیرہ جمع کرلیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی برادری خدشات کا شکار ہے۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیار کے لیے مطلوب 90 فیصد کی سطح تک پہنچنے والا ہے۔
ایران نے ایٹمی معاملات میں پیدا ہونے والی الجھنوں اور پیچیدگیوں کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو ذمہ دار قرار دیا ہے کیونکہ اُن کے پہلے عہدِ صدارت ہی میں امریکا نے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کو ترجیح دی تھی۔ بدھ کو ایک بیان میں ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے کہا تھا کہ ٹرمپ نے ایک بار انتہائی دباؤ ڈالنے کا راستہ منتخب کرکے دیکھا اور دیکھ لیا کہ ایسے حربے کام نہیں کریں گے۔