پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے شہر کامونکی میں زہریلے دودھ سے دو کمسن بہن بھائیوں کی ہلاکت کے مقدمے کا نیا رخ سامنے آگیا ہے، پولیس نے بچوں کے والد کے بعد بچوں کی والدہ کو بھی حراست میں لے لیا۔
جولائی میں تھانہ سٹی کامونکی کے علاقہ مسلم گنج میں ایک ماہ قبل رانا عثمان کے دو بچے تین سالہ محمد حنین اور چھ ماہ کی عنشراء مبینہ طور پر زہریلا ددوھ پینے سے دم توڑ گئے تھے۔ جس کے بعد انہیں سپرد خاک کردیا گیا تھا۔
جس کے بعد بچوں کی والدہ پلوشہ نے اپنے خاوند ٹیچر عثمان کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔
بچوں کی والدہ پلوشہ نے علاقہ مجسٹریٹ جویریہ منیر کو درخواست دائر کی کہ اس کے خاوند عثمان نے دوسری شادی کیلئے راستہ ہموار کرنے کی خاطر اپنے گھروالوں کے ساتھ مل کر بچوں کو زہر پلا کر مارا ہے، ان کی قبر کشائی کروائی جائے۔
بچوں کی والدہ نے الزام عائد کیا تھا کہ شوہر نے دوسری شادی کرنے کیلئے بچوں کو زہر دیا۔ جس کے بعد مجسٹریٹ کے قبر کشائی کے حکم کے بعد لاشوں کے نمونے حاصل کئے گئے۔
پولیس نے عثمان کو گرفتار کیا، لیکن دو ماہ تک تفتیش کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
جس کے بع پولیس نے والدہ سے تفتیش شروع کی، پولیس نے بچوں کی والدہ پلوشہ سے سوالات کئے تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکی۔
جس کے بعد پولیس نے پلوشہ کو حراست میں لے کر مزید تفتیش شروع کردی ہے۔