کسی بھی خوشی پر ہم سب کے ذہن میں صرف ایک بات ابھرتی ہے ۔۔۔ یہ کہ کچھ میٹھا ہو جائے۔ ہم نے کسی نہ کسی میٹھی چیز کو اپنے ہر حسین لمحے سے لازمی طور پر نتھی کردیا ہے۔ بچوں کے معاملے میں یہ بات اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔
کسی بھی بچے سے اظہارِ محبت کا ایک معقول طریقہ یہ سوچ لیا گیا ہے کہ اُسے چاکلیٹ، ٹافیز، کینڈیز اور ایسی ہی دوسری چیزیں دیجیے۔
اس کا نتیجہ؟ بچوں میں بہت سی بیماریاں چپ چاپ پنپتی رہتی ہیں۔ اس کا بروقت اندازہ بچوں کو ہو پاتا ہے نہ اُن کے بڑوں کو۔ جسم کو جب مٹھاس اُس کی ضرورت سے کہیں زیادہ مقدار میں ملتی ہے تب صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
بچپن ہی سے میٹھے کی زیادتی کے نتیجے میں بچوں دانت اور مسوڑے خراب ہو جاتے ہیں۔ اور اُنہیں ذیابیطس کے لاحق ہوجانے کے خطرے کا بھی سامنا رہتا ہے۔
اگر بچوں کے معمولات سے میٹھا کم کردیا جائے تو انہیں بڑی عمر میں ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے خطرے سے بہت حد تک بچایا جاسکتا ہے۔
بچوں کو دی جانے والی چاکلیٹ، کینڈی اور آئس کریم وغیرہ سے ان کی کھانے پینے کی عادات بگڑتی ہیں۔ شکر والی چیزیں کھانے سے ان کی بھوک بہت حد تک ختم ہو جاتی ہے اور پھر وہ روٹی سالن وغیرہ زیادہ نہیں کھاسکتے جو اُن کی صحت کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔