ایران کی عدلیہ نے تین افراد کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے اور ایک اعلیٰ جوہری سائنسدان کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں موت کی سزا سنائی دی۔
جوہر سائنسدان فخر زادہ کو نومبر 2020 میں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب ان کی کار پر تہران کے قریب ایک ہائی وے پر حملہ کیا گیا۔
ایرانی عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیر نے تہران میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ابتدائی قانونی کارروائی ارمیہ میں ہوئی اور یہ مقدمہ اس وقت اپیل کے عمل میں ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس کیس میں شامل افراد کے خلاف الزامات کی نوعیت سنجیدہ ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ تحقیقات کے نتیجے میں مغربی آذربائیجان صوبے میں گرفتار کیے گئے آٹھ افراد میں سے تین پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام لگایا گیا۔ مزید یہ کہ ان تینوں افراد پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے الکحل مشروبات کی اسمگلنگ کے بہانے ایران میں ایسے آلات منتقل کیے، جو مبینہ طور پر فخر زادہ کے قتل کے لیے استعمال کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سزائیں ایک ”جامع تفتیش“ کے بعد دی گئیں، جس میں ایرانی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے گہرائی سے تحقیقات شامل تھیں۔ اس کے علاوہ، چارسو دیگر مشتبہ افراد کے خلاف الزامات کا ابھی بھی جائزہ لیا جا رہا ہے، جو ایرانی حکومت کی سیکیورٹی کے لیے ایک سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
فخر زادہ کا قتل ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی تناؤ کو بڑھانے کا باعث بنا، اور اس واقعے نے اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔ ایران نے بارہا اسرائیل پر اس قتل کا الزام لگایا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک منصوبہ بند کارروائی تھی۔