26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان ایک اور درخواست میں دائر کی گئی ہے، جسے ڈائری نمبر بھی الاٹ کردیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بچھر نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی۔
درخواست گزاروں میں اظہر صدیق اور ایڈووکیٹ منیر احمد بھی شامل ہیں، سپریم کورٹ نے آئینی درخواست کو دائری نمبر بھی الاٹ کر دیا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کا اختیار پارلیمان کے پاس بھی نہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کا تحریری فیصلہ جاری
درخواست گزار کے مطابق سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ بنیادی حقوق کو ختم یا کم نہیں کیا جا سکتا، اس لیے عدلیہ کی آزادی سے متصادم ترمیم کالعدم قرار دی جائے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تشکیل نو پانے والے جوڈیشل کمیشن کو اجلاس منعقد کرنے سے روکا جائے۔
درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو فریق بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ صدر مملکت اور وزیراعظم کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
قبل ازیں 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کے لیے 2 سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا، دونوں سینئر ججز نے اسی ہفتے چھبیسویں ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ کر دیا۔
26 ویں ترمیم کا کیس: جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا
یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے تاہم 22 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔
آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175-اے میں کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔
واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ میں اس سے قبل بھی درخواست دائر کی گئی ہیں جس میں اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔