سابق صدر سپریم کورٹ بار سینیٹر حامد خان نے کہا ہے کہ کل کی ترامیم جمہوریت کے کتبے میں آخری کیل ہے، ہم کسی صورت 26 ویں آئینی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے، ہم ہر طرح سے کوشش کریں گے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں۔ دوسری جانب صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کی گئی، سادہ اکثریت سے ایسے قوانین بنا رہے ہیں جنہیں ترمیم میں شامل نہیں کر سکے، حکومت کو سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ جج نہیں مل رہے، اسی لیے ترمیم کے ذریعے نئے ججز لائے جارہے ہیں۔
صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ کے ہمراہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار سینیٹر حامد خان نے کہا کہ یہ لوگ رات کے اندھیرے میں شب خون مارنے جا رہے ہیں، صرف وکلا نہیں پاکستان کے عوام بھی بہت مشکل میں بیٹھے ہیں، کل کی ترامیم جمہوریت کے کتبے میں آخری کیل ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ کل ہونے والی ترمیم میں انہوں نے 5 سالہ توسیع کا دروازہ بھی کھولا، آمروں کے زمانے میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 5 سالہ توسیع کی گئی، حکومت کے لیے یہ توسیع دینا ضروری تھا تاکہ ان کی بھی توسیع ہوسکے، انہوں نے پارلیمنٹ کو غلام بنا دیا، اب عدلیہ کو بھی غلام بنانا چاہتے ہیں، یہ لوگ عدلیہ کا سارا اختیار اپنے پسندیدہ ججز کو دنیا چاہتے ہیں۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھانے کا معاملہ: پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے سر جوڑ لیے
سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ہم کسی صورت 26 ویں آئینی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے، سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں دائر ہو چکی ہیں، ہم ہر طرح سے کوشش کریں گے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان سے اپیل ہے کہ خدارا 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست جلد سے جلد سماعت کے لیے مقرر کریں، آج جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ بلا لی ہے، ہمیں نیتیں ٹھیک نظر نہیں آ رہیں۔
حامد خان نے کہا کہ پہلے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں غیر قانونی طور پر لوگوں کو غائب کیا جاتا تھا، اب پورے ملک میں قانونی طور پر غائب کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی اپروچ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کی گئی۔
26 ویں ترمیم کا کیس: جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا
اسد منظور بٹ نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا میرے 11 ممبران خریدے گئے، سادہ اکثریت سے ایسے قوانین بنا رہے ہیں جنہیں ترمیم میں شامل نہیں کر سکے، حکومت کو سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ جج نہیں مل رہے، اسی لیے ترمیم کے ذریعے نئے ججز لائے جارہے ہیں۔