لاہور ہائیکورٹ میں اسکولوں میں بچوں سے چھیڑخانی اور سوشل میڈیا ٹرولنگ کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی ہے، جس میں عدالت کا کہنا تھا کہ بچوں کو چھیڑ خانی سے بچانے کے قوانین ہونے چاہئیں۔
لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 50 فیصد طالبعلم پاکستان میں سائبر ہراسگی یا چھیڑخانی کا سامنا کر رہے ہیں، صاف شفاف تعلیمی ماحول فراہم کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے، بچوں کی سائبر ویڈیوز بنانے سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہورہی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ بچوں کو تنگ کرنے اور چھیڑ خانی سے روکنے کے احکامات صادر کئے جائیں۔
اس درخواست پر سماعت کے دوران درخواست گزار سائبہ فاروق کے وکیل بیرسٹر احمد پنسوتا نے دلائل دئیے۔
عدالت نے سیکرٹری خصوصی تعلیم کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی اور جسٹس جواد حسن نے کمیٹی سے سفارشات طلب کرلیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کیا حکومت نہیں چاہے گی کہ ہمارے بچے خودکشیوں سے بچ جائیں، بچوں کو چھیڑ خانی سے بچانے کے قوانین ہونے چاہئیں۔
جس پر سیکرٹری خصوصی تعلیم نے کہا کہ قوانین پہلے سے موجود ہیں، ان میں چھیڑخانی کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس جواد حسن نے کیس کی سماعت 10 دنوں تک ملتوی کر دی۔