کسی الزام کے بغیر گوانتا نامو بے جیل میں بیس سال گزارنے والے پاکستانی قیدی کا جمعہ کو آبائی شہر میں انتقال ہوگیا۔ وہ برسوں شدید تکلیف اور اذیت جھیلتا رہا۔
عبدالرحمٰن غلام ربانی کے بھائی احمد نے بتایا کہ ناکافی علاج کے باعث وہ اس دنیا سے چلا گیا۔ عبدالرحیم غلام ربانی ان 370 قیدیوں میں سے تھا جنہیں خطیر رقم کے لیے امریکی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔
عبدالرحیم غلام ربانی گزشتہ سال فروری میں وطن واپس آیا تھا۔ احمد نے بتایا کہ وطن واپسی کے بعد بھی اس کی تکلیف میں کمی نہیں آئی۔ ایک عالمی تنظیم کے مطابق دونوں بھائیوں نے کراچی میں 10 ستمبر 2002 کو گرفتاری کے بعد 2004 میں گوانتا نامو بے جیل منتقلی سے قبل سی آئی اے کی حراست میں بھی شدید صعوبتیں برداشت کیں۔
گوانتانامو بے جیل میں امریکی حکام اور اہلکار قیدیوں کو انتہائی درجے کی تکلیف دیا کرتے تھے۔ ان میں قیدِ تنہائی کے علاوہ پیشانی پر بلندی سے پانی گرانے کی سزا (واٹر بورڈنگ) بھی شامل تھی۔
گوانتانامو بے جیل سے رہائی کے بعد بھی اذیت کم نہ ہوسکی۔ رہائی کو 19 ماہ گزرنے کے بعد بھی وہ شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔ عبدالرحیم طویل عرصے سے بیمار تھا مگر شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث ڈھنگ سے علاج بھی نہ کرایا جاسکا۔ قید کے دوران اُسے دوسری سزاؤں کے ساتھ ساتھ انجیکشن بھی لگائے جاتے رہے۔ اسے قید کے دوران اور رہائی کے بعد ایک دن بھی سکون نہ مل سکا۔
تحقیقات سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ بہت سے لوگوں کو قصور وار نہ ہونے پر بھی دہشت گرد قرار دے کر گوانانامو بے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ ان میں سے چند ایک کی قید کے دوران موت واقع ہوگئی۔ اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ بے قصور افراد کو دانستہ امریکا کے حوالے سے کیا گیا یا یہ محض غلطی سے ہوا۔ اس معاملے میں وضاحت کی زحمت کسی نے گوارا نہیں کی۔