تشدد، نسلی منافرت، نسلی برتری، ہٹلر، عورت کیسے ملک چلائے گی، ذہنی مریض، پاگل، کچرا، الزامات، جوابی الزامات اور نہ جانے کیا کیا القابات ہیں, جو ناصرف ڈونلڈ ٹرمپ اور کمالا ہیرس ایک دوسرے کے لیے استعمال کر رہے ہیں بلکہ ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر محاذ سنبھال رکھا ہے، ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کمالا ہیرس کا دماغی ٹیسٹ ہونا چاہیے، ہیرس بھی نچلی نہ بیٹھیں، فوراً ہی جواب داغ دیا کہ وہ تیار ہیں اگر ٹرمپ بھی اپنا معائنہ کروائیں۔
بات اگر یہیں تک رہتی تو شاید قابل قبول ہوتی لیکن ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں امریکی کانگریس کی سابق رکن ایلزبتھ چینی کے لیے احمق، کند ذہن اور بے وقوف کے الفاظ استعمال کیے، یہ خاتون امریکی کانگریس کے تیسرے بڑے عہدے پر کئی برس تک فائز رہیں اور ان کے والد ڈک چینی امریکا کے سابق نائب صدر رہ چکے ہیں۔ دوران گفتگو ٹرمپ کا انداز تخاطب حقارت آمیز تھا۔
امریکا میں صدارتی انتخابات، ریاست مشی گن کے نتائج پانسہ پلٹ سکتے ہیں
کچرے کا لفظ ٹرمپ کی انتخابی ریلی میں شریک کامیڈین ٹونی ہنچ کلف نے استعمال کیا، اس نے پورٹو ریکو کو کچرے کا تیرتا جزیرہ کہہ ڈالا۔ اس ایک لفظ نے سیاست میں بھونچال پیدا کردیا، پورٹو ریکو کے عوام کو تو جو تکلیف ہوئی سو ہوئی، جواب میں امریکی صدر جو بائیڈن نے جوش خطابت یا بھلکڑ پن میں ٹرمپ کے حامیوں کو کچرا قرار دے دیا، پورٹو ریکو والے تو کہیں پیچھے رہ گئے، ٹرمپ کے سوشل میڈیا سیل نے وہ طوفان اٹھا دیا کہ الامان الحفیظ۔ کمالا ہیرس کو وضاحت کے لیے سامنے آنا پڑا اور انھوں نے بائیڈن کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا، بائیڈن نے بھی ایکس پر کہا کہ ان کا یہ مطلب نہیں تھا، انہوں نے کچرے کا لفظ امریکی شہریوں کے لیے نہیں بلکہ ٹرمپ کی ریلی میں موجود کامیڈین کے لیے استعمال کیا تھا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی کئی انتخابی تقاریر میں خم ٹھونک کر یہ کہا ہے کہ انہیں فتح مل چکی ہے اور اگر وہ ہارے تو اس کا مطلب دھاندلی اور الیکشن میں جھرلو پھیرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، اور وہ خود اور ان کے حامی نتائج پر ڈاکا برداشت نہیں کریں گے اور پوری قوت سے مزاحمت کی جائے گی، یعنی اگر میں جیتا تو الیکشن صاف اور شفاف ورنہ دھاندلی۔
قبل از وقت ووٹنگ کے دوران کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جن سے شاید دھاندلی کا تاثر پیدا ہوا ہو۔ وسکونسن کے دارالحکومت میڈیسن میں دو ہزار کے قریب ووٹرز کو ڈپلی کیٹ بیلٹ پیپرز بھیج دیے گئے، میڈیسن کو کاملا ہیرس کا بہت زیادہ حامی سمجھا جاتا ہے، انتظامیہ نے غلطی کو تسلیم بھی کیا اور کہا ہے کہ کوئی ووٹ واپس نہیں آیا ہے، اس لیے دھاندلی کا کوئی امکان نہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے جو کینٹکی کی ہے، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ الیکٹرانک مشین پر ایک ووٹر ٹرمپ کو ووٹ کاسٹ کرنا چاہتا ہے لیکن مشین ٹرمپ کا انتخاب نہیں کررہی، انتظامیہ نے اسے بھی فراڈ اور جھوٹ قرار دیا ہے۔
کئی جگہوں پر شناختی عمل کے کچھ مسائل سامنے آئے ہیں جنھیں ٹرمپ کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کردیا ہے، بعض جگہوں پر ٹرمپ کے حامیوں نے عدالت میں مبینہ جعل سازی کے خلاف درخواستیں دائر کردی ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ مہم زور پکڑ رہی ہے کہ محب الوطن شخص جو فاتح ہوچکا ہے، اس کی فتح کو شکست میں بدلنے کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے۔ یہی وہ شخص ہے جو امریکا کو عظیم امریکا بنائے گا، دنیا میں سب سے برتر اور اعلیٰ۔
ایک اور اہم بات جو پھیلائی جارہی ہے کہ کوئی خاتون ملک کیسے چلا سکتی ہے، خواتین عام طور پر کم عقل اور جذباتی ہوتی ہیں جبکہ صدر جیسے اہم عہدے پر کسی مرد کو ہونا چاہیے کیونکہ خواتین کے مقابلے میں مرد ناصرف کم جذباتی ہوتے ہیں، ان کا مزاج بھی ٹھنڈا ہوتا ہے اور عقل بھی۔
ہندو ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ٹرمپ کا بنگلادیش مخالف بیان
سوشل میڈیا پلیٹ فارم لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اور وہ کہیں نہ کہیں اس کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ یکم نومبر کو معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنا حتمی سروے جاری کردیا ہے جس کے مطابق ٹرمپ اور کمالا دونوں کو 48 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے، جبکہ کچھ چند دن پہلے ہونے والے سروے میں کمالا کو 49 فیصد ووٹرز اور ٹرمپ کو 46 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل تھی۔ کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کا سروے بھی سامنے آگیا، انڈین امریکی ووٹرز میں کمالا کی مقبولیت کم ہے اور انھیں جو بائیڈن کے مقابلے میں کچھ فیصد کم ووٹ ملیں گے۔ امریکا میں رہائش پذیر مسلمان بھی منقسم ہیں۔ ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ دونوں میں سے کم خطرناک کون ہے۔
سیاست اور جنگ میں جھوٹ اور پروپیگنڈے کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے، آج سے بیس تیس سال پہلے کی دنیا میں جھوٹ اور پروپیگنڈے کی ایک حد ہوتی تھی لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں جب خواہ تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ اور یا پھر کوئی جاہل، وہ جب چاہے جس طرح مناسب سمجھے اپنا جھوٹ تیار کرے اور سوشل میڈیا پر ڈال دے، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنادے۔
دوسرے ملکوں سے امریکا میں آکر آباد ہونے والوں کے ووٹ اپنی جگہ لیکن حتمی فیصلہ اصل امریکیوں کے ہی پاس ہے اور وہ بظاہر واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، برتر اور اعلیٰ امریکا اور دوسری طرف جمہوریت پسند اور برداشت کا حامل امریکا۔ اول الذکر رویہ ٹرمپ اور آخری کمالا ہیرس کا رویہ ہے۔ امریکا دوراہے پر کھڑا ہے۔ سیاست سے برداشت کہیں دور جاچکی ہے، جاگیردارانہ اور وڈیرانہ انداز، تشدد اور دوسرے ملکوں سے آکر امریکا میں بسنے اور اس کی ترقی اور سپر پاور بنانے والوں کے خلاف نسلی منافرت کو پروان چڑھا دیا گیا ہے۔ امریکیوں کو برتر اور دوسری تمام نسلوں کو کم تر ثابت کیا جارہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور کاملا ہیرس میں مقابلہ کانٹے کا ہے لیکن اگر نسلی برتری کا جنون کامیاب ہوگیا تو آج نہیں تو کل دنیا کو ایک اور ہٹلر کا سامنا کرنا ہوگا اور اس بار یہ ہٹلر امریکا سے آئے گا۔