پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے کہا ہے کہ انہیں لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی سے متعلق قابل بھروسہ اور واضح ثبوت نہ مل سکے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ لاہور کے ایک نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’پنجاب کالج‘ کے خواتین کے لیے مخصوص گلبرگ کیمپس میں فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ کو اُسی کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ خبر سامنے آنے کے بعد نجی کالج کی انتظامیہ، پنجاب کی صوبائی حکومت، پنجاب پولیس اور ایف آئی اے سمیت دیگر تحقیقاتی ادارے ایسے کسی بھی مبینہ واقعے کے رونما ہونے کی تردید کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ناصرف لاہور بلکہ راولپنڈی اور گوجرانوالہ سمیت متعدد شہروں میں طلبا نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا جس کے دوران اُن کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور متعدد طلبا کو گرفتار کیا گیا۔
نجی کالج واقعہ پر فیک نیوز پھیلانے کے کیس میں سینئر تجزیہ ایاز امیر کو ریلیف
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فورینسک شواہد اور قابل بھروسہ شہادتوں کی عدم موجودگی میں یہ حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اکتوبر 2024 کے اوائل میں لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے ریپ کے الزامات حقیقت پر مبنی تھے۔
کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے پیش آنے والے واقعات نے پنجاب کالج کیمپس 10 میں طالب علموں میں شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کو جنم دیا۔ ان واقعات میں سوشل میڈیا پر ریپ کے غیر تصدیق شدہ دعوے، کالج انتظامیہ کا تاخیری اور غیرمعقول ردعمل اور حکومتی نمائندوں کے متضاد بیانات شامل ہیں۔
لاہور میں مبینہ طالبہ زیادتی کے واقعے کی عدالتی تحقیقات کیلئے درخواست
مشن نے احتجاج کرنے والے طلبا کے خلاف طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلبا کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کی صورت حال اور جنسی ہراسانی کے مسلسل واقعات اور متاثرین ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی روش سے بہت نالاں ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پر ہونے والے شور سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دیگر فریقین نے طلبا کے بیانیے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔