وفاقی وزیرِخزانہ نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات کے بعد کہا ہے کہ پاکستان اپنے پاور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کے ڈھانچے میں اصلاحات نافذ کرے گا۔
پاکستان نے حال ہی میں آئی ایم ایف سے اس سلسلے میں ایک ارب ڈالر کی استدعا کی ہے۔ یہ فنڈنگ ریزیلینس اینڈ سسٹینیبلٹی ٹرسٹ کے تحت ہے۔
معروف جریدے ’پاور ٹیکنالوجی‘ کے لیے ریگیولیٹری پالیسی ریسرچر اویس راؤڈا نے آئی ایم ایف سے کی جانے والی ایک ارب ڈالر کی استدعا کا جائزہ لیا ہے۔
آئی ایم ایف سے ملنے والے ایک ارب ڈالر ماحول کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات اور توانائی کے حوالے سے تبدیلی کا عمل تیز کرنے پر صرف ہوں گے۔
پاکستان کے توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے مئی میں 9 ارب 50 کروڑ ڈالر مالیت کے تھے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام کو حالیہ برسوں میں بجلی کی شدید قلت کا سامنا رہا ہے۔
بجلی بنانے والے خود مختار اداروں کو کیپیسٹی پے منٹ کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔ سود نے گردشی قرضوں کا معاملہ مزید بگاڑ دیا ہے۔
وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری نے ’پاور ٹیکنالوجی‘ کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس اہم مسئلے کو ڈھنگ سے حل کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں۔ کاسٹ اسٹرکچر کو درست کرکے آئی پی پیز کو مزید موثر بنانے کے لیے منصوبہ سازی کی گئی ہے۔
منصوبوں کی تصریح کیے بغیر اویس لغاری نے کہا کہ پاور ڈویژن مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد صارفین پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ ایک آپشن یہ ہے کہ بجلی تیار کرنے کے شعبے میں حقیقی مسابقت کی راہ ہموار کی جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے حال ہی میں متعارف کرائے جانے والی مسابقتی مارکیٹ اینڈ مارکیٹ آپریٹر کا حوالہ دیا۔
وفاقی وزیرِ توانائی کا کہنا تھا کہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع سے بھی معاملات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ان ذرائع کی لاگت کم ہے اس لیے اِنہیں مسابقت کے حوالے سے ایڈوانٹیج حاصل ہے۔
حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری اور انتظامی سطح پر چند تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ گورننس میں بہتری لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔