یکم نومبر کو ڈوگرہ راج سے گلگت بلتستان کی آزادی کی یاد میں ایک خوبصورت قومی ترانہ جاری کیا گیا ہے۔
مقامی فنکاروں ذیشان حمزہ اور ہاشمی کی طرف سے پیش کیے جانے والے ترانے میں نہ صرف گلگت بلتستان کے دلکش مناظر کی نمائش کی گئی بلکہ یہاں کے لوگوں کی بہادری، ثقافت اور روایات کو بھی اجاگر کیا گیا۔
اپنی طاقتور دھنوں کے ذریعے، ترانہ جبر کے خلاف خطے کی جدوجہد کی یاد دہانی کا کام کرتا ہے، کیونکہ مقامی آبادی نے پاکستان کے ساتھ اتحاد کے لیے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا تھا۔
یہ اہم سفر یکم نومبر 1947 کو شروع ہوا اور 14 اگست 1948 کو ڈوگرہ راج کے خاتمے پر اختتام پذیر ہوا، جب پہلی بار گلگت کے آسمانوں پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔
وطن سے محبت کی عکاسی کرنے والے اشعار کے ساتھ:
بے کار کبھی نہ جائے گی ، اجداد کی جو قربانی ہےرکھتے ہیں شہادت کا جزبہ ، یہ عشق ہماری دولت ہے۔
یہ ترانہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے اپنے ورثے سے جڑے گہرے تعلق کو مجسم کرتا ہے۔ یہ قومی نغمہ اتحاد، محبت اور امن کے پیغام کو فروغ دیتا ہے، جو گلگت بلتستان کے لوگوں کے جذبے کا لازمی جزو ہے۔