26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سابق صدر سپریم کورٹ بار کی عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست خارج کردی گئی ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کو آئین کے بنیادی حقوق اور بنیادی آئینی ڈھانچہ کے منافی قرار دیا جائے۔
عدالت عظمیٰ میں درخواست سابق صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری سمیت 6 وکلا کی جانب سے دائر کی گئی جس میں وفاق اور صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئینی ترمیم کی ارکان سے زبردستی ووٹ منظوری نہیں لی جا سکتی، پارلیمنٹ نا مکمل اور اس کی آئینی حیثیت پر قانونی سوالات ہیں، عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، آئینی ترمیم سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
26 ویں ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں تیسری درخواست جمع
دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ چیف جسٹس کی تعیناتی مداخلت کے مترادف ہے، آئینی بنچز کا قیام سپریم کورٹ کے متوازی عدالتی نظام کا قیام ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرار دیا جائے، آئینی ترمیم کو آئین کے بنیادی حقوق اور بنیادی آئینی ڈھانچہ کے منافی قرار دیا جائے اور ججز تقرری جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے سے روکا جائے۔
مجوزہ 26 آئینی ترمیم سے متعلق دائر درخواست کا فیصلہ پیر کو جاری کیا گیا، دو صفحات پر مشتمل فیصلہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں 16 ستمبر کو مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی، درخواست پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے 8 اعتراضات عائد کئے تھے۔
فیصلے کے مطابق دوران سماعت وکیل نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی، درخواست پر نمبر نہیں لگایا گیا تھا، درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 17 اکتوبر کو درخواست پر سماعت کی تھی۔
دوسری جانب بلوچستان بار کونسل کی جانب سے آئینی بینچ کی تشکیل روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم آئینی بنیادی ڈھانچہ اور عدلیہ کی آزادی کے برخلاف ہے۔
آئینی بینچ تشکیل روکنے کے لیے بلوچستان بار کونسل نے وکیل منیر اے ملک کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں جوڈیشل کمیشن کی ترمیم کے تحت کام سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ اراکین اسمبلی سے دباؤ کے ذریعے ووٹ ڈلوایا گیا، ترمیم کے وقت ہاؤس مکمل نہیں تھا، نامکمل ہاؤس آئینی ترمیم نہیں کرسکتی، آئینی ترمیم عدلیہ کی آزادی کے برخلاف ہے۔