چین میں حالیہ سالوں میں شرح پیدائش میں نمایاں کمی نے ملک کی تعلیمی اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں کنڈرگارٹنز بند ہو گئے ہیں۔ چینی وزارت تعلیم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2023 میں کنڈرگارٹنز کی تعداد میں 14,808 کی کمی دیکھنے میں آئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کی تعداد میں مسلسل گراوٹ ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف تعلیمی اداروں کے لیے چیلنج ہے بلکہ ملک کی بڑھتی ہوئی بزرگ آبادی اور اقتصادی مسائل کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے، جو آنے والے دنوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں۔
چینی وزارت تعلیم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2023 میں کنڈرگارٹنز کی تعداد میں 14,808 کی کمی ہوئی، جس کے بعد کل تعداد 274,400 رہ گئی ہے۔ یہ مسلسل دوسرے سال میں کمی ظاہر کرتی ہے اور چین کی گرتی ہوئی شرح پیدائش کی عکاسی کرتی ہے۔
کنڈرگارٹن کے اندراج میں کمی
ہانگ کانگ میں قائم ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ کنڈرگارٹن کے اندراج میں بھی مسلسل تیسرے سالکمی ہوئی، جو 11.55 فیصد یا 5.35 ملین بچوں کی کمی سے 40.9 ملین رہ گئی۔
چین کی آبادی 2023 میں مسلسل دوسرے سال کم ہوئی، جو 20 لاکھ کی کمی کے بعد 1.4 بلین تک پہنچ گئی۔ ملک میں صرف نو ملین پیدائشیں ریکارڈ کی گئیں، جو 1949 کے بعد سب سے کم ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
آبادیاتی بحران اور بزرگوں کی دیکھ بھال
چین کو اب دوہرے بحران کا سامنا ہے: نہ صرف پیدائش کی شرح کم ہو رہی ہے بلکہ بزرگ آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سنہوا نیوز ایجنسی کے مطابق، 2023 کے آخر تک تقریباً 300 ملین افراد کی عمریں 60 سال یا اس سے زیادہ ہوں گی، جو 2035 تک 400 ملین اور 2050 تک 500 ملین تک پہنچ جائے گی۔
بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کے مراکز کے طور پر کنڈرگارٹنز کی دوبارہ تیاری کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں سماجی تحفظ کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ حکام چین کے آبادیاتی بحران کی وجہ ون چائلڈ پالیسی کو قرار دیتے ہیں، جو 2016 میں ختم ہوئی تھی۔
چین نے پچھلے مہینے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا، جس سے مردوں کے لیے 60 سے 63 اور خواتین آفس ورکرز کے لیے 55 سے 58 کر دی گئی۔