Aaj Logo

شائع 28 اکتوبر 2024 08:19am

ذلفی کی درخواست پر برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا اپنی حکومت کو خط، خان کی رہائی کیلئے بات کرنے کا مطالبہ

لندن: مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 20 سے زائد برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستانی حکومت سے بات چیت کرے۔

واضح رہے کہ یہ خط ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب حال ہی میں امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد اراکین نے عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی صدر جوبائیڈن کو خط لکھ دیا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ سابق وزیراعظم سمیت پاکستانی جیلوں سے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کوشش کی جائے۔

اب لیورپول ریور سائیڈ کے رکن پارلیمنٹ کم جانسن نے عمران خان کے مشیر برائے بین الاقوامی امور ذلفی بخاری کی درخواست پر برطانوی سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی کو خط لکھا۔ جس میں انہوں نے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی کی درخواست کی۔ اس خط پر ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے اراکین کے دستخط موجود ہیں۔

برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستانی حکومت سے بات کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس خط میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین شامل ہیں جو عمران خان کی قید کی قانونی حیثیت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے عمران خان کی قید کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور برطانوی حکومت سے ان کی رہائی کے لیے اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔ خط میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے اصولوں کی حمایت کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں مختلف اراکین کے دستخط موجود ہیں۔

ارکان پارلیمنٹ نے کہا کہ برطانوی حکومت کا فرض ہے کہ وہ پاکستان سے بات چیت کرے اور عمران خان کی رہائی کے لیے کوششیں کرے۔ انہوں نے عمران خان کی مسلسل نظربندی کو ملک میں جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔

خط میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ انسانی حقوق، جمہوریت، اور بین الاقوامی قانون کی حمایت کرتے ہیں۔ خط پر دستخط کرنے والوں میں کم جانسن اور دیگر اہم اراکین شامل ہیں، جن میں پاؤلا بارکر، اپسانہ بیگم، اور لیام برن شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ذلفی بخاری نے خط پر دستخط کرنے والے اراکین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی حمایت کرنے والوں کا بھی شکر گزار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی غیر قانونی قید ختم ہونی چاہیے۔

Read Comments