Aaj Logo

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2024 06:21pm

امریکی اخبار کی 36 سال میں پہلی بار کسی بھی صدارتی امیدوار کی توثیق سے معذرت، ایڈیٹر مستعفیٰ

امریکا میں اخبارات کی جانب سے صدارتی امیدواروں کی حمایت ایک روایتی عمل رہا ہے، لیکن واشنگٹن پوسٹ نے 36 سال بعد پہلی مرتبہ کسی بھی امیدوار کی حمایت سے معذرت کرلی ہے۔

یہ اقدام اس حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہ 1988 کے بعد پہلی بار ہے کہ یہ اخبار کسی صدارتی امیدوار کی حمایت نہیں کرے گا۔ دو ہزار سے زائد قارئین نے غیر جانب داری قبول کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے سبسکرپشن ختم کردی ہے۔

اخبار نے واضح کیا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس میں سے کسی ایک کی بھی حمایت نہیں کرے گا، اور اس اصول پر ہمیشہ قائم رہے گا۔ واشنگٹن پوسٹ نے پہلی بار 1952 میں صدارتی امیدوار کی توثیق کی تھی، پھر یہ سلسلہ 1976 میں دوبارہ شروع ہوا۔

یہ اقدام کملا ہیرس کے لیے ایک بری خبر ہے، کیونکہ واشنگٹن پوسٹ نے ماضی میں مسلسل ڈیموکریٹک امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ اخبار نے دو رپورٹروں کا ایک آرٹیکل بھی شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ادارتی صفحے کے عملے نے کملا ہیرس کی حمایت کا مسودہ تیار کیا تھا، مگر اخبار کے مالک جیف بزوس نے اسے شائع کرنے سے روک دیا۔

ایڈیٹر کی استعفیٰ اور سیاسی تنقید

اس اقدام پر رابرٹ کیگن، جو کہ اخبار کے ایڈیٹر ہیں، مستعفی ہوگئے ہیں۔ کیگن نے ٹرمپ کی دوسری صدارت کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوئے تو وہ آمر ثابت ہوں گے۔

اس سے پہلے، کیلیفورنیا کے سب سے بڑے اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے بھی کملا ہیرس کی توثیق کو روک دیا تھا، جس پر ایل اے ٹائمز کے ادارتی مدیر اور دو بورڈ ارکان مستعفی ہوگئے۔

نکاسون شیؤنگ، جو کہ اخبار کے مالک کی بیٹی ہیں، نے وضاحت کی کہ اس گریز کا مطلب ڈونلڈ ٹرمپ کی توثیق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخبار بائیڈن اور ہیرس کی اسرائیل اور غزہ سے متعلق پالیسیوں کی وجہ سے ڈیموکریٹس کی حمایت نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ یہ ایسے امیدوار کی توثیق ہوگی جو جنگ کی نگرانی کر رہا ہے، اور نسل کشی کسی صورت قبول نہیں۔

Read Comments