سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی بینچز کو مقدمات کی منتقلی کا سلسلہ جاری ہے، عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد میں زمین کے تنازع سے متعلق مقدمہ بھی آئینی بینچ کو بھجوا دیا۔
نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں تو آئینی شقوں کی تشریح کرنا ہوگی، یہ مقدمہ تو اب آئینی بینچ کو منتقل ہونا چاہیئے، جس پر وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں یہ کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن ہونا یہی چاہیئے۔
نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس کو آئینی بینچ کے حوالے سے پالیسی دے دی ہے، آفس کو ہدایت کی ہے جن مقدمات میں کوئی قانون چیلنج ہوا ہے ان کی الگ کیٹیگری بنائی جائے اور جن مقدمات میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہوئی وہ ساتھ ساتھ منتقل کرتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے مختلف بینچز نے گزشتہ روز بھی 4 مقدمات آئینی بینچ منتقل کر دیے تھے۔
21 اکتوبر کو منظور کردہ 26 ویں آئینی ترمیم میں عدالتی بینچوں کی تشکیل کے لئے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 191۔اے (سپریم کورٹ کی آئینی بینچ) شامل کیا گیا ہے۔
شق نمبر 1 میں کہا گیا ہے ’سپریم کورٹ کے آئینی بینچ ہوں گے جن میں سپریم کورٹ کے ججز شامل ہوں گے، جن کی نامزدگی اور مدت کا تعین جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا جب کہ آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔
آرٹیکل 191 اے کی شق 2 اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سب سے سینئر جج آئینی بینچوں کا پریزائیڈنگ جج ہوگا۔
شق 3 آئینی بینچوں کے علاوہ سپریم کورٹ کے بینچوں کو ’سپریم کورٹ کو تفویض کردہ مندرجہ ذیل دائرہ اختیارات ’ کو محدود کرتا ہے:
(الف) آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار؛
(ب) آرٹیکل 185 کی شق 3 کے تحت سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار میں، جہاں آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ یا حکم کسی قانون کی آئینی حیثیت یا آئین کی تشریح کے بارے میں قانون کے سوال کو شامل کرتا ہے؛
(ج) آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ اختیار؛
شق نمبر4 کے تحت شق 2 کے مقاصد کے لیے کم از کم 5 ججوں پر مشتمل بینچ ہو، جسے پریزائیڈنگ جج اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سے 2 سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی نامزد کرے گی، اور یہ بینچ ایسے معاملات کی سماعت کرے گا۔
آرٹیکل 191 اے کی شق 5 کے مطابق 26ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے فیصلوں کے خلاف تمام درخواستیں، اپیلیں یا نظرثانی کی درخواستیں، جن پر شق 2 لاگو ہوتی ہے، اب آئینی بینچوں کو منتقل کردی جائیں گی اور صرف شق 3 کے تحت تشکیل دیے گئے بینچ ان کی سماعت اور فیصلہ کریں گے۔
شق نمبر6 کے ذریعے شق نمبر1 میں نامزد ججوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آئینی بینچوں کے طرز عمل اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد وضع کرسکتے ہیں، ’چاہے آئین میں کچھ بھی موجود ہو لیکن قانون کے تابع ہو‘۔
یاد رہے کہ 23 اکتوبر کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دے دی جس کے بعد وزارت قانون نے ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔
نئے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی تعیناتی 26 اکتوبر سے 3 سال کے لیے کی گئی ہے ۔
اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی 26 اکتوبر کوعہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھا۔