زمین کے ایک بنجر ٹکڑے کو صرف بیس سالوں میں فصلوں اور مچھلیوں کے فارم میں تبدیل کرنا ناممکن لگتا ہے۔ مگر ایک متحدہ عرب امارات کے شہری نے صحرا میں سبز نخلستان بنانے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا کیا، اور کھارے پانی سے لہلہاتے کھیت اگالیے۔
العین میں واقع فارم پر ہر سال 150 ٹن سے زیادہ فصل پیدا ہوتی ہے اور جدید طریقوں کو اپنا کر 200,000 سے زیادہ تلپیا مچھلیاں کی دیکھ بھال کی جاتے ہے۔
ان دنوں یہ فارم متحدہ عرب امارات کے متعدد فارموں میں سے سب سے زیادہ مقبول ہے جو اپنے نفرد طریقوں کو اپنانے کے باعث کسانوں سمیت ماہرین کی توجہ حاصل کررہا ہے۔
عبدالرحمٰن نے 2003 میں یہ فارم کی ذمہ داری سنبھالی اور زمینی پانی کی زیادہ نمکیات جیسے مسائل کا سامنا کیا۔ ان مسائل کے حل کے لیے انہوں نے ڈیسالینیشن کے آلات نصب کیے اور ایک آبی زراعت کا نظام قائم کیا تاکہ صاف اور غذائیت سے بھرپور پانی فراہم کیا جا سکے۔
جب عبدالرحمٰن نے اپنا فش ٹینک بنانا شروع کیا، تو انہیں معلوم ہوا کہ مچھلیوں کو کافی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، ایک سرد رات آکسیجن فراہم کرنے والا جنریٹر ناکارہ ہوگیا تو تقریباً 34,000 مچھلیاں ہلاک ہوگئیں۔
اس حادثے کے باوجود عبدالرحمٰن نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے ٹینکوں کو تقسیم کیا اور ہنگامی حالات کے لیے بیک اپ سسٹم بنایا۔ مچھلی کے تالاب مضبوط پلاسٹک سے بنے ہیں، جو فائدہ مند بیکٹیریا کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا امونیا کو نائٹروجن میں تبدیل کرتے ہیں، جس سے مچھلی اور پودے دونوں کو پھلنے پھولنے میں مدد ملتی ہے۔
فارم میں ایک پائیدار آبی زراعت کا نظام بھی موجود ہے، جہاں عبدالرحمٰن مچھلی کے تالابوں کا پانی کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح، وہ بغیر کسی گرین ہاؤس کے مختلف فصلیں اگاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور دنیا بھر کے لوگوں نے اس منفرد طریقے سے متاثر ہو کر ایسے ہی طریقوں کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔
حال ہی میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کی وزیر ڈاکٹر آمنہ بنت عبداللہ الدہک نے فارم کے مربوط زرعی نظام کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا، “ہم نے آبی زراعت، پولٹری، لائیو اسٹاک، اور کھلے میدان کی زراعت کو یکجا کرنے والا ایک جدید ماڈل دیکھا ہے، جو ’پلانٹ دی ایمریٹس‘ اقدام کے تحت ملک بھر میں نقل کیے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔