Aaj Logo

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2024 04:02pm

عمران خان کو عدالت پیش کرنے کے بجائے وکلا کی جیل میں ملاقات

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کو عدالت پیش کرنے کے بجائے وکلا کی جیل میں ہی ملاقات پر کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا جس کے بعد جمعرات کی سہ پہر وکلا نے ان سے ملاقات کی۔

پی ٹی آئی لیگل ٹیم کے تین وکلا کی ملاقات تین بجے جیل میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس پر یہ ملاقات ہوئی جو چار بجے کے قریب ختم ہوگئی۔

عمران خان کو جیل سے عدالت لانے کا حکم ہی وکلا ملاقات کے لیے تھا، حل یہ نکالا گیا کہ بانی پی ٹی آئی سے وکلا کی ملاقات جیل میں ہی کروا دی جائے، ملاقات کرانے سے متعلق فریقین کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے 3 بجے جیل ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 3 بجے سلمان اکرم راجہ، شعیب شاہین اور مجھے جیل ملاقات کے لیے بلایا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کو آج عدالت میں پیش کرنے کا حکم

قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کو آج 3 بجے عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے حکم دیا کہ بانی پی ٹی آئی کو لے کرآئیں گے وہ اپنے وکلا کے ساتھ میٹنگ کر لیں گے اگر نہیں لاسکتے تو وجہ بتائیں اورعدالت کو مطمئن کریں۔**

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سرداراعجاز اسحاق خان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے وکلا کی جیل ملاقات نہ کرنے کی توہین عدالت درخواست پر سماعت کی، جس دوران درخواست گزار کی جانب سے فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور شعیب شاہین بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

جسٹس سرداراعجازاسحاق خان نے پوچھا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں حکومت ایک نوٹیفکیشن سے انصاف کی فراہمی کا عمل روک سکتی؟ جس پر اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ عدالت کی سماعتیں نہیں ہورہی تھیں اس لیے ملاقات نہیں کرائی گئی۔

جسٹس سرداراعجاز اسحاق خان نے کہا کہ درخواست گزار کہہ رہا ہے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی، میں یہ نہیں کہہ رہا نوٹیفکیشن درست ہے یا نہیں اس کے لیے تو ان کو الگ سے پٹیشن دائر کرنا پڑے گی لیکن عدالتی حکم کے باوجود ملاقات سے انکار عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔

عمران خان کی وکلا سے ملاقات نہ کرانے پر سیکرٹری داخلہ اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو نوٹس

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا حکومت پنجاب نے توہین عدالت کی اگر روکا ہے تو، کہاں ہے نوٹیفکیشن؟

پنجاب حکومت کا نوٹیفکیشن عدالت پیش کیا گیا جس پر فاضل جج نے کہا یہ تو21 سے 25 اکتوبر تک کا نوٹیفکیشن ہے پہلے والا بھی دکھائیں، وزارت داخلہ کی رپورٹ دیں اور بتائیں کہ کیا سیکیورٹی ٹھریٹس ہیں۔

اسٹیٹ کونسل نے کہا 3 اکتوبر کے بعد سکیورٹی تھریٹس کی وجہ سے پابندی لگی، جس پر جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا عدالت سکیورٹی تھریٹس کو نہیں مانتی، وکلا کو بھی نہیں ملنے دیا گیا، یہ توہین عدالت ہے، ابھی کیا پوزیشن ہے، آپ آج کی تاریخ میں عمل کریں۔

اسٹیٹ کونسل نے کہا 25 اکتوبر تک کا نوٹیفکیشن ہے، جس پر جج نے کہا یہ نوٹیفکیشن میرے احکامات کی خلاف ورزی ہے، یہ بہنیں ہیں، وکلاء نہیں ہیں، وکلاء کو کیوں نہیں ملنے دیا گیا، کیا حکومت نوٹیفکیشن جاری کرکے ایک جگہ کو سیل کرکے انصاف کی فراہمی کو روک سکتی ہے۔

جج اعجاز اسحاق نے کہا اے جی صاحب یہ توہین میرے احکامات کی ہے، وزارت داخلہ کو وضاحت دینا ہو گی، رولز بھی موجود ہیں، یہاں درخواست کیوں آئے، وزارت داخلہ نے آکر بتانا ہے کہ کونسی سکیورٹی تھریٹ تھی کہ وکلاء بھی نہیں جاسکتے تھے، محکمہ داخلہ نے 6 اور 17 اکتوبر کو احکامات جاری کیے، وزارت داخلہ کے لیٹر کا بھی حوالہ دیا گیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ وکلا کی آن لائن میٹنگ کرانے کا حکم دے دیا جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالتی آرڈر پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کیس میں عدالت ایسا آرڈر پاس نہیں کر سکتی۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ آپ سکیورٹی انتظامات کریں اور بانی پی ٹی آئی کو عدالت میں لائیں، عدالت نے سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے کہا اگر آپ عمران خان کو نہیں لائیں گے تو وجہ بتائیں گے، جس سکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے نہیں لائیں گے اس سے متعلق عدالت کو مطمئن کریں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کو آج سہہ پہر 3 بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا اور کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو لے کر آئیں وہ اپنے وکلا کے ساتھ میٹنگ کر لیں گے۔

Read Comments