Aaj Logo

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2024 11:02am

عمران خان کی رہائی کیلئے 60 اراکین کانگریس کا خط، پاکستانی الیکشن پر اعتراضات

امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد اراکین نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی صدر جوبائیڈن کو خط لکھ دیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ سابق وزیراعظم سمیت پاکستانی جیلوں سے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کوشش کی جائے۔

غیرملکی خبررساں ادارے ’روئٹرز‘ کے مطابق ایوان نمائندگان کے اراکین نے اپنے خط میں صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں انسانی حقوق کو مرکز رکھا جائے۔

اراکین کی جانب سے لکھے گئے خط میں امریکی سفارتخانے کے اہلکاروں سے جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملنے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔

خط لکھنے والے اراکین کی قیادت کرنے والے امریکی رکن گریگ کیسارکا کہنا تھا کہ امریکی اراکین کی جانب سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے مشترکہ مطالبہ کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ عمران خان گرفتاری سے قبل امریکی خارجہ پالیسی کے دیرینہ ناقد اور واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھنے والے سابق وزیراعظم کہلائے جاتے ہیں۔

اراکین نے کہا کہ 2022 میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہوئے اور وہ اگست 2023 سے جیل میں ہیں۔

اراکین نے کہا کہ 2022 میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہوئے اور وہ اگست 2023 سے جیل میں ہیں۔

وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق مراسلہ میں کہا گیا کہ ’’کم از کم، ہم آپ کی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عمران خان کی حفاظت کے لیے پاکستانی حکومت سے فوری طور پر رابطہ کریں اور امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں سے جیل میں ان سے ملنے کی ہدایت کرفتاری سے قبل امریکی خارجہ پالیسی کے دیرینہ ناقد اور واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھنے والے سابق وزیراعظم کہلائے جاتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ ’فروری کے انتخابات کے بعد سے پاکستان میں آمریت ماحول ہے۔ سادہ لفظوں میں، پاکستان کا موجودہ نظام ’سویلین چہرے کے ساتھ فوجی حکمرانی‘ کے مترادف ہے۔

نمائندوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے سیاسی سرگرمی کو دبانے اور صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی ایک وسیع کوشش کے طور پر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس خط پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی پاکستانی حکام نے اس پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔

Read Comments