لاہور: حالیہ دنوں میں لاہور کتاب میلے کے حوالے سے ایک تصویر اور پاکستانی ٹی وی اداکار خالد انعم سے منسوب ایک بیان سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوا۔ اس تصویر کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ عالمی کتاب میلہ ایک فوڈ فیسٹیول میں تبدیل ہو گیا، جہاں شرکا نے کتابوں کے مقابلے میں کھانے پینے کی اشیاء خریدیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وائرل دعوے میں کہا گیا کہ اس میلے میں صرف 35 کتابیں فروخت ہوئیں، جبکہ 1200 شوارمے اور 800 بریانی خریدی گئیں۔ اس پر مختلف سوشل میڈیا صارفین اور سیاستدانوں نے تبصرے کیے۔
خالد انعم کا وضاحتی بیان
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خالد انعم نے اس دعوے کی حقیقت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان اعداد و شمار میں کوئی حقیقت نہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ معلومات انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک انگریزی پوسٹ کا اردو ترجمہ کر کے مذاق میں شیئر کی تھیں، لیکن وہ جلد ہی اسے ڈیلیٹ کر دیا۔
انھوں نے اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً دو روز قبل ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر انگریزی میں ایک پوسٹ دیکھی اور اس کا اردو میں ترجمہ کر کے بنا تصدیق کیے ازراہ مذاق یہ فقرے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شئیر کیے تھے۔
انھوں نے اس بارے میں مزید کہا کہ میں نے یہ جملے لکھنے کے ایک گھنٹے بعد ہی اپنا سٹیٹس ڈیلیٹ کر دیا تھا لیکن سب نے بنا تصدیق کیے اسے وائرل کر دیا۔ انھوں نے غیر مصدقہ معلومات کو شیئر کرنے پر معذرت کی۔
خالد انعم کا بیان سامنے آنے کے باوجود یہ دعویٰ سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے بار بار شیئر کیا گیا۔ یہاں تک کہ بھارت ٹائمز اخبار نے بھی اس بیان کو شائع کر دیا۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”پیٹ اور دماغ کے مقابلے میں دماغ کے جیتنے کے چانس کم ہوتے ہیں ویسے بھی ہماری دماغ کو زیادہ استعمال کرنے کی عادت کم ہے“
لاہور بک فیسٹیول کی انتظامیہ کا ردعمل
لاہور بک فیسٹیول کے منتظمین نے وزیر دفاع کے بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا، ”ہم پاکستان میں سب سے پرانا بک فیئر ہیں اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ہمارے کتاب میلے میں کتنا ہجوم ہوتا ہے۔“
’کتاب پڑھنے کا کلچر خطرے میں ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوا۔ آپ کو فروری 2025 میں خود اس کا مشاہدہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔‘
عوامی رائے
سوشل میڈیا پر مختلف صارفین نے اس واقعے پر اپنی رائے دی، جیسے کہ ڈاکٹر ضیا الدین نے کہا کہ ”میلے کے شرکا نے علم کو ترجیح دی۔“ جبکہ نادیہ علی نے کتابوں کی مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انڈین کتابیں سستے کاغذ پر چھاپی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ کم دام پر دستیاب ہیں۔
یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ سوشل میڈیا پر معلومات کی جلدی اور بنا تصدیق شیئرنگ کس طرح عوامی رائے اور ثقافتی تقریبات کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس واقعے نے یہ بھی ظاہر کیا کہ کتابوں کا کلچر خطرے میں ہے، لیکن یہ ختم نہیں ہوا۔ عوامی آگاہی اور صحیح معلومات کی اشاعت اس ثقافت کو بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔