میرپورخاص میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر شاہنواز کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر شاہنواز کی 4 پسلیاں اور کندھے کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی، جبکہ لاش کا اگلا حصہ، چہرہ اور سر کی جلد جلی ہوئی پائی گئی۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شاہنواز کے دونوں ہاتھوں اور پیروں کے ناخن جزوی طور پر جلے ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو سندھ حکومت نے قبر کشائی کر کے ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں پولیس سرجن نے ڈائریکٹر جنرل صحت کو خط لکھا، جس کے بعد قبر کشائی کی گئی اور نمونے لیے گئے۔
واقعہ کی پس منظر
18 ستمبر 2024 کی رات، سندھڑی پولیس نے مبینہ مقابلے میں عمرکوٹ کے رہائشی ڈاکٹر شاہنواز کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ بعد میں، ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کا مقدمہ سندھڑی تھانے میں درج کیا گیا، جس میں قتل اور انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی۔
مقدمے میں ایس ایچ او اور اہلکاروں سمیت 15 افراد شامل ہیں، جبکہ سابق ڈی آئی جی جاوید جسکانی، سابق ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری، اور سابق ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
حکومتی اقدامات
26 ستمبر 2024 کو، سندھ کے وزیرداخلہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی، چاہے مقتول کی فیملی ایف آئی آر نہ بھی کرائے۔ 27 ستمبر کو سندھ حکومت کی اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں ڈاکٹر شاہنواز کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کی تصدیق ہونے پر ڈی آئی جی میرپورخاص، ایس ایس پی میرپورخاص اور ایس ایس پی عمرکوٹ کو معطل کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کی رپورٹ
11 اکتوبر کو سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے توہین مذہب کے الزام میں ڈاکٹر شاہنواز کے قتل پر ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا کہ میرپورخاص اور عمرکوٹ کے ایس ایس پیز اور ڈی آئی جی نے گرفتاری سے انکار کیا، لیکن بعد میں تصدیق کی کہ ملزم کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مقدمے کے بعد ایف آئی اے سے تکنیکی معاونت نہیں لی گئی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ 2 روز تک فراہم نہیں کی گئی۔
عدالتی کارروائی
15 اکتوبر کو محکمہ داخلہ سندھ نے سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھ کر ڈاکٹر شاہنواز کی ہلاکت کے معاملے پر جوڈیشل انکوائری کی درخواست کی۔ 21 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ کے میرپورخاص سرکٹ بینچ نے کیس کی سماعت کے دوران پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے سے کرانے کا حکم دیا، اور تحقیقات کی نگرانی کے لیے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو مقرر کیا۔