پاکستان کے معروف قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل پاکستان منیر اے ملک کا کہنا ہے کہ آپ آئینی بینچز کو کوئی بھی نام دیں، وہ الگ عدالت ہی ہے۔
کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منیر ملک نے کہا کہ عدلیہ پہلے بھی آزاد نہیں تھی، سپریم کورٹ میں اب یہ تنازعہ ہے کہ کونسا کیس ریگولر عدالت میں جائے گا اور کونسا آئینی عدالت میں، سپریم میں ایسے کم ہی کیس ہوتے ہیں جس میں آئینی پہلو نہ ہو، آرٹیکل 4 اور 9 ہر درخواست میں ہوتے ہیں۔
منیر ملک نے کہا کہ فوجداری اور سول اپیل کے علاوہ تمام کیسز آئینی عدالت منتقل ہوجائیں گے، اگر زیر التوا کیسز کو کم کرنا مقصود تھا تو یہ بینچ کس طرح کیس ختم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بار نے ججز تعیناتی یا ریفارم پر کبھی اعتراض نہیں کیا، بار کا موقف ہمیشہ یہی ہے کہ پرچی پر کوئی نا آئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کنٹرولڈ جمہوریت کے بعد اب کنٹرولڈ عدلیہ ہے، بار نے ہمیشہ کالے قوانین کے خلاف جدوجہد کی ہے، کہا جارہا ہے ناگ کا زہر نکال دیا گیا ہے، یہ ناگ عدلیہ کے گلا گھونٹ رہا ہے۔
منیر ملک نے کہا کہ ریٹائرڈ ججز بھی اس جدوجہد میں سامنے آئیں، ماضی میں پرو اسٹبلشمنٹ فیصلے ہوتے تھے، افسوس ہے ہم زوال کی جانب جارہے ہیں، خوشی ہے کراچی بار یا سندھ بار کونسل تاریخی کردار ادا کررہے ہیں، ہماری جدوجہد عدالتوں میں بھی ہوگی اور سڑکوں پر بھی ہوگی۔