سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں بھی 26ویں آئینی ترامیم کی تمام 27 شقیں منظور ہوگئی ہیں۔ قومی اسمبلی سے بھی منظوری کے بعد مسودہ فوری طور پر صدر کو بھجوایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق صدر آصف زرداری پیر کی صبح آئینی ترمیم کے مسودہ پر دستخط کریں گے، دستخط کے بعد چھبیسویں آئینی ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آئینی ترامیم کی کامیابی کا سہرا مولانا فضل الرحمان قرار دیا ہے۔
قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس بل کی کامیابی میں میرا نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کا سب سے بڑا کردار ہے۔ سیاست میں والد کے بعد اگر کسی کو مانتا ہوں تو وہ فضل الرحمان ہیں۔ آئینی ترمیم میں مولانا فضل الرحمان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بلاول نے کہا کہ اگر میں قرآن پاک کے بعد اگر کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ پاکستان کا 1973 کا آئین ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ موجودہ بل میں سب سے کم نکات ن لیگ کے ہیں، بل میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے نکات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم سیاست اور جمہوریت کی فتح ہے، سیاستدانوں کا کام ہی درست وقت میں صحیح فیصلہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا کام ہے آمر کا راستہ روکنا، بتائیں عدالت نے اپنی ذمہ داری کتنی بار نبھائی، یونیفارم میں صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت عدالت نے دی۔
26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے سینیٹ میں منظور، پی ٹی آئی کا کوئی رکن منحرف نہیں ہوا
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جب ہم جدوجہد کرکے، قربانیاں دے کر، آمر کو بگھاتے ہیں تو پھر ہماری عدلیہ کو آئین، جمہوریت اور قانون یاد آجاتے ہیں۔ اور یاد آنے پر بھی وہ اپنا اختیار عوام کو انصاف دینے اور آئین و جمہورت کو تحفظ دینے کے لیے استعمال نہیں کرتے بلکہ ایک کے بعد ایک وزیراعظم کو فارغ کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ تاریخ ثابت کردے گی کہ 26ویں ترمیم عوام کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پھر کالے سانپ، دانت اور زہر کی بات ہوئی، جس کالے سانپ کی آج یہاں بات ہو رہی ہے وہ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔
بلاول کا کہنا تھا کہ ایک وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر فارغ کیا گیا، ایک وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر فارغ کیا گیا، ہم نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کو ہٹایا، ہم سے تحریک عدم اعتماد کا حق چھیننے کی کوشش کی گئی، کیا عوام کے منتخب نمائندوں کوعدم اعتماد لانے کا حق نہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آئینی عدالتیں لانا چاہتے ہیں، قائداعظم نے بھی آئینی عدالت کی تجویز دی تھی، اختیار کسی ایک عدالت میں اکٹھا نہیں ہونا چاہئے، آئینی عدالت کا بیج قائداعظم محمد علی جناح نے بویا۔
اختر مینگل کی آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے والے اپنے دونوں سینیٹرز کو مستعفی ہونے کی ہدایت
بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین سازی کرنا ہم عوامی نمائندوں کا کام ہے، ہم آئین سازی کا اختیار کسی سے چھین نہیں رہے۔ شہید بےنظیر بھٹو سے چیف جسٹس لگانے کا حق چھینا گیا تھا، ڈر تھا کہ خاتون وزیراعظم خاتون چیف جسٹس تعینات کرے گی۔
بلاول نے تمام اتحادیوں کا شکیہ ادا کیا اور کہا کہ ہم ”باپ“ (بلوچستان عوامی پارٹی) کو کیسے بھول سکتے ہیں، ان کے بغیر کام نہیں ہوسکتا تھا، ہم تحریک انصاف کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔