Aaj Logo

اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2024 05:49am

سینیٹ کے بعد 26ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی منظور، صدر کے دستخط سے قانون بن جائے گی

سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں بھی 26ویں آئینی ترامیم کی تمام 27 شقیں منظور کرلی گئی ہیں، اس دوران حکومت نے باآسانی اپنی دو تہائی اکثریت ثابت کی۔ قومی اسمبلی سے بھی منظوری کے بعد بل فوری طور پر صدر کو بھجوایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق صدر صبح آئینی ترمیم کے مسودہ قانون پر دستخط کریں گے، دستخط کے بعد چھبیسویں آئینی ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی۔

ایوان زیریں سے منظوری کے بعد وزیرِ اعظم نے آئینی ترمیم کی توثیق کیلئے صدر کو بھیجی جانے والی ایڈوائس پر دستخط کرکے صدر پاکستان کو ایڈوائس بھیجی۔

قبل ازیں، سینیٹ میں بل پیش ہوتے ہی نواز شریف اور حمزہ شہباز 26ویں آئینی ترامیم پر رائے شماری میں حصہ لینے کیلئے خصوصی طیارے سے اسلام آباد روانہ ہوگئے۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ پانچ آزاد اراکین کو بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا، جنہیں پارلیمنٹ ہاؤس کی چوتھی منزل پر رکھا گیا، اس دوران پارلیمنٹ ہاؤس کے مذکورہ حصے میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے۔

ذرائع نے کہا کہ مذکورہ پانچوں اراکین حکومتی بل کی حمایت کریں گے، ان اراکین میں سے دو کا تعلق جنوبی پنجاب، دو کا وسطی پنجاب اور ایک کاتعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔

ذرائع کے مطابق جیسے ہی قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگا مذکورہ اراکین کو ایوان میں پہنچا دیا جائے گا۔

اجلاس سے قبل نواز شریف نے شہباز شریف سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کی، پی ٹی آئی نے بھی عمر ایوب کے چیمبر میں اپنے اتحادیوں کی بیٹھک سجائی اور پھر پی ٹی آئی وفد نے مولانا عطاؒ لرحمان کے چیمبر میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔

اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں حکمران اتحاد کا اہم اجلاس ہوا، جس میں بلاول بھٹو، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اطلاعات عطا تارڑ، وزیر داخلہ محسن نقوی، ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار شریک ہوئے۔

ذرئع کے مطابق اجلاس میں آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری کی حکمت عملی طے کی گئی۔ اسپیکر کو سینیٹ کی طرز پر کل قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ بند رکھنے کا مشورہ دیا گیا، آئینی ترامیم کی منظوری کی خوشی میں ملازمین کو ایک دن کی چھٹی دینے پر غور کیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس

قومی اسمبلی کا اجلاس ساڑھے 5 گھنٹے کی تاخیر سے رات ساڑھے 11 بجے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، جس کے فوراً بعد اجلاس اگلے دن 21 اکتوبر 2024 کی رات 12 بج کر 5 منٹ تک موخر کرنے کی تحریک پیش کی گئی۔

اس دوران نواز شریف ایوان میں شہباز شریف کے ہمراہ پہنچے تو لیگی اراکین نے ”شیر شیر“ کے نعرے لگائے، بلاول بھٹو نے ایوان میں نوازشریف کا استقبال کیا اور ان سے بات بھی کی۔

اس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے اظہار خیال کیا اور وہی باتیں اور تفصیلات ایوان کے گوش گزار کیں جو سینیٹ اجلاس میں کی تھیں۔

اس دوران مولانا فضل الرحمان ایوان میں پہنچے تو بلاول بھٹو نے فضل الرحمان کا استقبال کیا، مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کی نشست پر جاکر ان سے مصافحہ کیا اور انہیں گلے لگایا۔

قرآن پاک کے بعد اگر کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ پاکستان کا آئین ہے، بلاول

بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کی کامیابی میں میرا نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کا سب سے بڑا کردار ہے۔ سیاست میں والد کے بعد اگر کسی کو مانتا ہوں تو وہ فضل الرحمان ہیں۔ آئینی ترمیم میں مولانا فضل الرحمان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

بلاول نے کہا کہ اگر میں قرآن پاک کے بعد اگر کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ پاکستان کا 1973 کا آئین ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ موجودہ بل میں سب سے کم نکات ن لیگ کے ہیں، بل میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے نکات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم سیاست اور جمہوریت کی فتح ہے، سیاستدانوں کا کام ہی درست وقت میں صحیح فیصلہ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا کام ہے آمر کا راستہ روکنا، بتائیں عدالت نے اپنی ذمہ داری کتنی بار نبھائی،یونیفارم میں صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت عدالت نے دی۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم جدوجہد کرکے، قربانیاں دے کر، آمر کو بگھاتے ہیں تو پھر ہماری عدلیہ کو آئین، جمہوریت اور قانون یاد آجاتے ہیں۔ اور یاد آنے پر بھی وہ اپنا اختیار عوام کو انصاف دینے اور آئین و جمہورت کو تحفظ دینے کے لیے استعمال نہیں کرتے بلکہ ایک کے بعد ایک وزیراعظم کو فارغ کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ تاریخ ثابت کردے گی کہ 26ویں ترمیم عوام کے حق میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پھر کالے سانپ، دانت اور زہر کی بات ہوئی، جس کالے سانپ کی آج یہاں بات ہو رہی ہے وہ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔

بلاول کا کہنا تھا کہ ایک وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر فارغ کیا گیا، ایک وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر فارغ کیا گیا، ہم نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کو ہٹایا، ہم سے تحریک عدم اعتماد کا حق چھیننے کی کوشش کی گئی، کیا عوام کے منتخب نمائندوں کوعدم اعتماد لانے کا حق نہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ ہم آئینی عدالتیں لانا چاہتے ہیں، قائداعظم نے بھی آئینی عدالت کی تجویز دی تھی، اختیار کسی ایک عدالت میں اکٹھا نہیں ہونا چاہئے، آئینی عدالت کا بیج قائداعظم محمد علی جناح نے بویا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین سازی کرنا ہم عوامی نمائندوں کا کام ہے، ہم آئین سازی کا اختیار کسی سے چھین نہیں رہے۔ شہید بےنظیر بھٹو سے چیف جسٹس لگانے کا حق چھینا گیا تھا، ڈر تھا کہ خاتون وزیراعظم خاتون چیف جسٹس تعینات کرے گی۔

بلاول نے تمام اتحادیوں کا شکیہ ادا کیا اور کہا کہ ہم ”باپ“ (بلوچستان عوامی پارٹی) کو کیسے بھول سکتے ہیں، ان کے بغیر کام نہیں ہوسکتا تھا، ہم تحریک انصاف کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔

آئینی ترمیم میں ایک جملہ ”بوٹ کو عزت دو“ شامل کرلیں، عمر ایوب

پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر اور قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو آئینی پراسس ہورہا ہے اس میں ایک جملہ ”بوٹ کو عزت دو“ شامل کرلیں، باہر بینرز لگوا دیں ایم این اے کی قیمت ایک ارب سے تین ارب روپے۔

عمر ایوب نے کہا کہ یہ ایک بدبودار پراسس ہے۔ یہ آزاد عدلیہ کا گلا گھونٹنے کا عمل ہے۔ یہ آئینی ترمیم پاکستانی عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ خصوصی کمیٹی کا غلط استعمال کیا گیا، آئینی ترمیم کا مسودہ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں جانا چاہیے تھا، کیا جلدی تھی کہ رات کو اس وقت اجلاس ہورہا ہے، خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر قانون کو مسودے کا پتہ نہیں ہوتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بلاول نے سب کا شکریہ ادا کیا، ویگو ڈالوں کو بھی کرلیتے، نامعلوم لوگوں کا بھی کر لیتے، ہمارے 5 لوگوں کو زدوکوب کیا گیا ان کا بھی شکریہ ادا کرتے۔ چوہدری الیاس، عثمان علی کو آج پیراشوٹ پر یہاں لے کر آگئے۔ مبارک زیب یہاں پر بیٹھا ہوا اس کا بھائی پی ٹی آئی کا ورکر تھا، ظہور قریشی کو یہاں لایا گیا، زین قریشی، مقداد حسین کو غائب کیا گیا ، عادل بازئی کا پلازہ مسمار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تیز گام لگائی ہوئی ہے، اتنی کیا جلدی تھی، یہ ترمیم آج پاس نہیں ہوتی تو کیا لوگوں کی تنخواہیں بند ہوجاتیں؟ کیا ملک بند ہوجاتا؟ کیا پاکستان میں ٹرینیں نہیں چلتیں؟ کیا پی آئی اے کے جہاز نہ اڑتے؟

عمر ایوب نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے یہ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جارہے ہیں، مولانا فضل الرحمان نے درست کہا تھا کہ ایک کالا تھیلا تھا، ایک کالا سانپ تھا۔

انہوں نے کہا کہ بلاول نے تقریر کیلئے 55 منٹ لئے، جب اجلاس کے شروع میں تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ کی جا رہی تھی تو سارجنٹ ایٹ آرمز چٹیں دے رہے تھے کہ جلدی ختم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اراکین کو ہدایت ہے کہ وہ اس ترمیمی عمل کا حصہ نہ بنیں، اگر وہ ووٹ کرتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ حکومت کو جمہوریت کے گورکن کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ باعزت طریقے سے ریٹائر ہورہے ہیں، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایوانِ زیریں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکہ 1958 میں پڑا، پاکستان میں 1958 میں پہلا آئینی حادثہ ہوا، اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکہ 1958 میں پڑا، پاکستان میں 1958 میں پہلا آئینی حادثہ ہوا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ آئین کی بات کرنے والوں کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، آئین کی بات کرنے والوں کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، سیاستدانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ باعزت طریقے سے ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ نے منظور کرلیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کا واحد مقصد اس ایوان کے وقار اور عظمت کو بحال کرنا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ واحد ہیں جنہوں نے عدلیہ کی عزت بحال کی، 26ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ نے منظور کرلیا، ہم اس آئینی ترمیم کے ذریعے ایوان کو بااختیار بنارہے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت کی اصل روح کو بحال کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمان کےبھی میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں، اس ایوان کی تمام پارٹیوں کے میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں، عدلیہ میں 26 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، دنیا میں 144 ویں نمبر پر ہے، عدلیہ کے 17، 18 لوگ آسمان سے آئے کہ احتساب نہیں ہوسکتا، اتنا آزاد نہیں کرنا چاہیے تھا کہ وہ ہماری آزادی چھین لیں، قید سیاستدان کاٹیں، شہید سیاستدان ہوں، احتساب بھی سیاستدان بھگتیں، ہم اس آئینی ترمیم کے ذریعے ایوان کو بااختیار بنارہے ہیں۔

میثاق جمہوریت مشکل میں رہنمائی کے لیے ہے، مولانا فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میری تقریر تنقید کے بدلے نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا بھی تذکرہ تھا، میثاق جمہوریت مشکل میں رہنمائی کے لیے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین مقدم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جائے، میری تقریر تنقید کے بدلے نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بات آئین کی آئے تو ہم سب کی نظر میں اس کی حیثیت میثاق ملی کی ہے، آج کی آئینی ترامیم پیش کرنے پر بلاول بھٹو کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میاں نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان کاوشوں میں میرے ساتھ تحریک انصاف بھی شامل رہی۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ سے متعلق پارلیمنٹ کو اختیار ملا، اس کے بعد اختیار انیسویں ترمیم کی صورت دوبارہ لے لیا۔

فضل الرحمان نے کہا کہ پہلے اور آج کے مسودے میں بہت فرق ہے، ابتدائی مسودہ چھپن شقوں پر مشتمل تھا، بات چیت کے بعد یہ مسودہ بائیس نکات پر آگیا، مسودے کے ذریعے جمہوریت کا قتل کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا ماضی میں جب نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر آواز اٹھائی، تو میں آج بانی پی ٹی آئی عمران خان پر ہونے والی سختیوں کی مذمت کروں گا۔

ایک باختیار، موثر بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو مضبوط بناسکتا ہے، فاروق ستار

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے بعد اب ہم 26 ویں ترمیم قومی اسمبلی سے پاس کروانے کی پوزیشن میں ہیں، ملکی استحکام کیلئے آئینی ترمیم کا ساتھ دے رہے ہیںِ، سینیٹ کے بعد اب ہم 26 ویں ترمیم قومی اسمبلی سے پاس کروانے کی پوزیشن میں ہیں، ملکی استحکام کے لیے آئینی ترمیم کا ساتھ دے رہے ہیںِ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کو مسائل سے نجات دلانی ہے، جتنی بھی ترامیم کرلیں لیکن ہمیں اپنی آئینی تاریخ کو بھی دیکھنا ہوگا، قیام پاکستان کے بعد آئین بنانے میں ہمیں 9 سال لگے، ہمیں مہنگائی اور بے روزگار ختم کرنا ہوگی، ایک باختیار، موثر بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو مضبوط بناسکتا ہے، بااختیار بلدیاتی نظام کو موثر بنایا جائے، پاکستان کے عوام کو مسائل سے نجات دلانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنی بھی ترامیم کرلیں لیکن ہمیں اپنی آئینی تاریخ کو بھی دیکھنا ہوگا، قیام پاکستان کے بعد آئین بنانے میں ہمیں 9 سال لگے، ہمیں مہنگائی اور بے روزگار ختم کرنا ہوگی، ایک بااختیار، موثر بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو مضبوط بناسکتا ہے، بااختیار بلدیاتی نظام کو موثر بنایا جائے۔

آج پاکستانی آئینی تاریخ اور عدلیہ کیلئے سیاہ دن ہے، بیرسٹر گوہر

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کیلئے محکوم بنایا جائے گا، پاکستان کی آزاد عدلیہ کو حکومتی نمائندگان نے آج جتنی تنقید کا نشانہ بنایا، میاں صاحب نے جو شعر پڑھا اس سے عدلیہ کی توہین کی اس کی مذمت کرتے ہیں، آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کے لیے محکموم بنایا جائے گا، آج پاکستانی آئینی تاریخ اور عدلیہ کیلئے سیاہ دن ہے، یہ چاہتے ہیں ہر عدالت ان کے ماتحت ہو۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ چند کیسز کی بنیاد پر آئینی بینچ بنارہے ہیں، وزیراعظم پہلی بار ججز کی تقرری کرے گا، یہ کمیٹی بنی تو خورشید شاہ کے ساتھ بھی دھوکہ ہوا ہے، یہ چند کیسز کی بنیاد پر آئینی بینچ بنارہے ہیں، وزیراعظم پہلی بار ججز کی تقرری کرے گا۔

ووٹنگ کا عمل، حکومت نے دو تہائی اکثریت ثابت کردی

لیڈران کے خطابات کے بعد ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو قومی اسمبلی میں حکومت نے دوتہائی اکثریت ثابت کردی، قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ابتدائی دو شقوں کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ حق میں 225 ووٹ دئے گئے۔

اس کے بعد اپوزیشن واک آؤٹ کرکے لابی میں چلی گئی، جبکہ عمر ایوب اور صاحبزادہ حامد رضا ایوان میں گنتی کی ویڈیو بناتے رہے۔

اس دوران شق وار منظوری کے دوران 27 شقوں کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا۔

چار آزاد اراکین قومی اسمبلی مبارک زیب، ظہور قریشی، عثمان علی اور اورنگزیب کھچی نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دئے۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں حکومتی اتحادی اراکین کی تعداد 215 ہے اور آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو 224 ووٹ درکار تھے۔

’بانی پی ٹی آئی کی خوشامد کرکے کیا محسوس ہورہا تھا؟‘ صحافی کے سوال پر فضل الرحمان برہم

اسمبلی میں ن لیگ کے 111، پیپلز پارٹی 70، ایم کیوایم کے 22 ارکان، ق لیگ 5 اور استحکام پاکستان پارٹی کے 4 اراکین ہیں۔ نیشنل پارٹی، ضیاء لیگ اور بی اے پی کا بھی ایک ایک رکن اسمبلی کا حصہ ہے۔

آئینی ترمیم کیلئے جمعیت علماء اسلام کے 8 ووٹ ملنے کے بعد حکومت کے ووٹ 223 ہوگئے۔

لیکن حکمران اتحاد کے 3 افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہے، اس طرح تعداد 211 اور جے یو آئی کے 8 اراکین کی حمایت کے ساتھ یہ تعداد 219 بنی اور حکومت کو آئینی ترمیم پاس کروانے کیلئے مزید 5 ارکان کی ضرورت پیش آئی۔

تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد 8 ہے، قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے 80 ہیں، بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخواہ میپ کا ایک ایک رکن ہے۔

لیکن دوران اجلاس ظہور قریشی، عثمان علی، مبارک زیب ایوان میں پہنچا دیئے گئے، مسلم لیگ ق کے منحرف رکن الیاس چوہدری کی بھی حکومتی صفوں پر واپسی ہوئی اور یوں حکومت کے آئینی گیم کے لئے نمبرز پورے ہوگئے۔

یہ صرف ترمیم نہیں بلکہ اتفاق رائے اور یکجہتی کی مثال ہے، وزیراعظم

آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہبازشریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہآج تاریخی دن ہے الحمدللہ، یہ صرف ترمیم نہیں بلکہ اتفاق رائے اور یکجہتی کی مثال ہے، آج نیا سورج طلوع ہوگا جس کی روشنی پورے ملک میں ہوگی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس سے پہلے حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا تھا، ملک کو اربوں کا نقصان ہوا، لاکھوں لوگ انصاف کیلئے ترس رہے ہیں، اس ترمیم سے انصاف آسان ہوگا۔

وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر دستخط 2006 میں لندن میں ہوئے تھے، میثاق جمہوریت پر نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے دسختط کئے، میثاق جمہوریت پر مولانا فضل الرحمان نے بھی دستخط کئے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ آج حکومت، اتحادی جماعتوں، جے یو آئی اور آزاد ارکان نے ووٹ ڈالے، آج طے ہوگیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، ہم پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے لیکن ابھی وقت نہیں کہ ان کا جواب دوں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کی تاریخ میں اچھے اور بڑے بڑے ججز بھی آئے ہیں، ایک پاناما تھا جو ختم ہوگیا، پھر اقامہ پر سزا دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، ماضی میں جو ہوا اب کسی وزیراعظم کو گھر نہیں بھیجا جاسکے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ بلاول بھٹو نے خلوص دل سے بے پناہ محنت کی، مولانا فضل الرحمان کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ اداکرتاہوں، اپنی ناراضی اور زوردار دلائل کے بعد مولانا نے اہم کردار ادا کیا، کاش پی ٹی آئی بھی اس میں شامل ہوتی تو بہت اچھا ہوتا، ملک کو پیغام گیا کہ ہاؤس میں موجود پارٹیوں نے ملک کیلئے ذاتی مفاد کو قربان کیا۔ تمام جماعتوں نے آگے بڑھ کر 26 ویں ترمیم منظور کی، جو پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھے گی۔

بعدازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس بروز منگل 22 اکتوبر 2024 شام 5 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

Read Comments