لبنان کی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کا ڈرون اسرائیلی فوجی اڈے تک پہنچا کیسے؟ ناصرف پہنچا بلکہ ایسی تباہی مچائی کہ نیتن یاہو حکومت اموات اور حملے کے بعد ہونے والی بدترین تباہی کی فوٹیج تک جاری کرنے پر مجبور ہوگئی، جب کہ اسرائیل کے پاس آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلنگ، ایرو ڈوم اور سوم جیسے نظام موجود ہیں، تو پھر یہ نظام ان ڈرونز کو روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟ اور اسرائیل کو حملے کا علم کیوں کر نہ ہوسکا؟
اسرائیل کے پاس تین جنگی سسٹم موجود ہیں جو اسرائیل کو حملوں سے بچانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، جن پر تحقیق سے لے کر قابل عمل بننے تک بلاشبہ اربوں ڈالر لاگت آئی ہے، امریکا نے تکنیکی امداد کے ساتھ اربوں ڈالر بھی فراہم کیے۔ اب اسرائیل کو تھاڈ بیٹری بھی فراہم کردی گئی ہے۔
آئرن ڈوم: یہ نظام چار سے ستر کلومیٹر کی حدود کے اندر سے فائر کردہ راکٹوں اور آرٹلری شیل کو فضا ہی میں ناکارہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہے، یہ ٹرک پر نصب سسٹم ہے اور اس کی نقل و حمل ضرورت کے مطابق آسانی سے کی جاسکتی ہے، اس کی تیاری میں امریکا نے ڈھائی ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کی، اس نظام کے تین حصے ریڈار، بیٹل مینجمنٹ اینڈ ویپن کنٹرول اور میزائل فائرنگ یونٹ ہیں، ریڈار یہ پتا لگاتا ہے کہ راکٹ کہاں سے فائر ہوا اور اس کی رفتار کیا ہے.
دستیاب ڈیٹا کے مطابق بی ایم سی راکٹ کے گرنے اور اس کے ممکنہ اثرات کا حساب کتاب لگانے کے ساتھ سسٹم میں پہلے سے درج کی گئی نامزد جگہ کے لیے خطرے کا تجزیہ کرتا ہے اور اگر خطرہ ظاہر ہوجائے تو پھر میزائل فائر یونٹ اپنا کام شروع کردیتا ہے اور راکٹ کو مطلوبہ جگہ پر گرنے سے قبل فضا ہی میں تباہ کردیتا ہے۔
اسرائیلی دعوؤں کے مطابق یہ نظام ڈرون کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہے اور اس کا تجربہ بھی کامیاب رہا۔ ہر لانچر میں بیس انٹرسیپٹر یعنی راکٹ کو گرانے والے میزائل ہوتے ہیں، اور یہ اپنے اطراف ایک سو پچاس کلومیٹر تک کے علاقے کا تحفظ کرتا ہے، ایک انٹرسیپٹر پر لاگت کا تخمینہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک ہے۔
ڈیوڈ سلنگ: یہ نظام چالیس سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے سے مار کرنے والے میڈیم رینج میزائل کو روک سکتا ہے، یہ لڑاکا طیاروں، بیلسٹک میزائل اور ڈرون کو بھی تباہ کرنے کا حامل ہے۔ اسے آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تیاری کے لیے بھی امریکا نے لاکھوں ڈالرز فراہم کیے۔
ایرو سسٹم: ایرو دوم اور سوم 2400کلومیٹر سے پھینکے گئے بیلسٹک میزائل کو مار گرانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔
ڈرون یا بغیر انسان والی فضائی گاڑی (ان مینڈ ایریئل وہیکل) کم وزن، سستے، چھوٹے اور سست رفتار ہوتے ہیں، انھیں جاسوسی سمیت نگرانی اور حملوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، ڈرون نیچی پرواز کرتے ہیں، غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے یہ ڈرون اسرائیل کے درد سر بنے ہوئے ہیں۔
حزب اللہ کی جانب سے ڈرون کا استعمال طویل عرصے سے جاری ہے۔ شمالی اسرائیل کے فوجی اڈے پر حزب اللہ کے ڈرون حملے نے بڑی تباہی مچائی، اسرائیلی میڈیا کے مطابق لبنان سے دو ڈرون اڑے، ایک کو مار گرایا گیا جبکہ دوسرا اچانک غائب ہوگیا، یہی سمجھا گیا کہ وہ بھی گر کر تباہ ہوگیا ہے، اس لیے سائرن بھی نہیں بجائے گئے۔ لیکن پھر یہی ڈرون فوجی اڈے کی کینٹین پر حملہ آور ہوا، حملے میں 4 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 70 کے قریب زخمی ہوئے، کسی ڈرون کے ذریعے یہ اسرائیل میں ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی تباہی ہے۔
اسی طرح جولائی میں یمنی حوثیوں کا بھیجا گیا ڈرون تل ابیب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا، اکتوبر میں بھی ڈرون نے وسطی اسرائیل میں ایک نرسنگ ہوم کو نشانہ بنایا۔ عراق سے بھی ڈورن بھیجا گیا جس سے گولان کی پہاڑیوں پر قابض اسرائیلی فوج کے دو اہلکار مارے گئے۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ 9 اکتوبر کو کریات شمعونا پر لبنان نے راکٹ داغے، آئرن ڈوم نے کام نہیں کیا، 20 راکٹ گرے، آئرن ڈوم ناصرف خاموش پڑا رہا بلکہ جھوٹے ڈرون حملے کا انتباہ جاری ہوا، سائرن تک بجا دیے گئے۔
الما ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران لبنان کی شمالی سرحد سے اسرائیل پر پانچ سو انسٹھ ڈرون حملے ہوئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل اب تک ڈرون حملے روکنے میں کیوں ناکام ہے؟
اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے سینئر محقق ڈاکٹر یہوشوا کالسکی نے غیرملکی میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ڈرونز چھوٹے ہوتے ہیں، ان کی رفتار بھی زیادہ نہیں ہوتی، کوئی 200 کلومیٹر فی گھنٹا ہوتی ہے، پرواز بھی نچلی ہوتی ہے، ریڈار ان کی شناخت کرنے میں بھی ناکام رہتا ہے، زمین پر نصب ریڈار ہو یا کسی جنگی جہاز پر، ڈرون کو کوئی پرندہ سمجھتے ہیں، اس لیے خودکار نظام حرکت میں نہیں آتا، اسی طرح جنگی جہاز کی رفتار 900 کلومیٹر ہوتی ہے، اس کے لیے اتنی آہستگی سے چلنے والے ڈرون کو نشانہ بنانا ممکن نہیں ہوتا۔
بقول ڈاکٹر کالسکی لبنان کے عسکریت پسند گروہ اسرائیل پر حملوں کے لیے ڈرون استعمال کر رہے ہیں، ان میں سے اگر سارے نہیں تو زیادہ تر ایرانی ساختہ ہیں اور جو انھیں مبینہ طور پر ایران نے ہی فراہم کیے ہیں۔
ڈاکٹر کلاسکی کے مطابق ڈرون سے نمٹنے کے لیے ہائی پاور لیزر ٹیکنالوجی پر کام ہورہا ہے، مائیکرو ویو توپیں بھی بنائی جارہی ہیں، تاکہ ڈرون کے الیکٹرانک نظام کو فضا میں ہی تباہ کردیا جائے، لیزر سے حملے کی ٹیکنالوجی ابھی تجرباتی مراحل میں ہے اور شاید مسقبل قریب میں دستیاب ہوجائے۔
یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل میں محدود اہداف پر 180میزائل داغے، ایرانی میڈیا کے مطابق حملے میں فتح ہائپرسونک بیلسٹک میزائل پہلی بار استعمال کیے گئے، انھوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ایرانی میزائلوں کی صلاحیت نے امریکا اور اسرائیل کو حیران کردیا، میزائلوں نے اسرائیل میں بڑی تباہی مچائی جس کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکیں۔ اسرائیل، امریکا اور برطانیہ نے ایران کے بہت سے فتح میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کرنے کا دعویٰ کیا لیکن مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہے، خاصی تعداد میں میزائل اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ فتح میزائل پہلی بار 2023میں منظرعام پر آیا۔ ایرانی میزائل ٹیکنالوجی نے امریکا اور اسرائیل کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے اور امریکا اپنے جدید ترین میزائل نظام تھاڈ کے ساتھ اسرائیل کی مدد کو دوڑ پڑا۔
ٹرمینل ہائی آلٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس کا مخفف تھاڈ ہے، کانگریشنل ریسرچ سروس کی 17 اکتوبر 2024 کی رپورٹ کے مطابق امریکی میزائل دفاعی نظام میں تھاڈ بنیادی اہمیت کا حامل ہے، ٹرک پر نصب اس نظام کو آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔
ہر تھاڈ یونٹ ریڈار، فائر کنٹرول اور ٹرک پر نصب 6 لانچرز اس کے ساتھ 48 انٹرسیپٹرز اور 100 کے قریب تربیت یافتہ فوجیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو اگر ایک نام سے پکارا جائے تو اسے تھاڈ بیٹری کہا جاتا ہے۔
سینٹر آف آرمز کنٹرول اینڈ نان پرولیفیریشن کے مطابق یہ نظام مختصر، درمیانے اور طویل فاصلے سے آنے والے حملہ آور میزائلوں کو کرہ ارض کی حدود یا اس سے باہر یعنی خلا میں بھی تباہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے، اس کی حد 150 سے 200 کلومیٹر تک ہے، اس نظام کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کیے جارہے ہیں تاہم کامیاب تجربات کے علاوہ یہ نظام اب تک ایک بار ہی استعمال کیا جاسکا ہے، 17 جنوری 2022 کو اس نے پہلا بیلسٹک میزائل فضا میں ہی تباہ کردیا، جسے یمنی حوثیوں نے متحدہ عرب امارات پر داغا تھا۔
تھاڈ بیٹری یعنی پورے سسٹم کی لاگت 1.8ارب ڈالر کے قریب ہے، تھاڈ بہت بڑے ایریا پر نظر رکھ سکتا ہے، اسرائیل کا جتنا بڑا سائز ہے اس کے لحاظ سے ایک بیٹری بھی بہت ہے کیونکہ اسرائیل کو ابھی صرف ایرانی میزائلوں کے خطرے کا سامنا ہے۔
کانگریشنل ریسرچ سروس کی اپریل کی رپورٹ کے مطابق تھاڈ دھماکا خیز وار ہیڈ نہیں لے جاسکتا، اس کا فائدہ یہ ہے کہ میزائل تیز رفتاری سے انتہائی بلندی تک پہنچ جاتا ہے اور حملہ آور میزائل کو تباہ کردیتا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ تھاڈ کی تنصیب اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کو مزید مضبوط بنانے میں مدد دے گی، یہ اقدام اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے واشنگٹن پرعزم ہے۔ امریکا نے گزشتہ سال اسرائیل کو پچاس ہزار ٹن کے قریب ہتھیار فراہم کیے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے فتح میزائل سے اب تک تھاڈ سسٹم کا براہ راست آمنا سامنا نہیں ہوا، اسرائیل کی مدد کے بہانے امریکا تھاڈ بیٹری کی صلاحیت بھی جانچنا چاہتا ہے تو اس کے لیے مشرق وسطیٰ سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔