ہفتے کا پورا دن نکلنے کے باوجود آئینی ترامیم نہ تو سینیٹ میں پیش ہوسکی اور نہ ہی قومی اسمبلی میں اسے پیش کیا جاسکا، دونوں ایوانوں کے اجلاس اتوار کی دوپہر تک کیلئے ملتوی کردئے گئے۔ وفاقی کابینہ اور سینیٹ کااجلاس سہ پہرتین بجے، قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام چھ بجے ہوگا۔ اس دوران وفاقی کابینہ کا اجلاس فوری طلب کیا گیا۔ اس حوالے سے وزیر دفاع خوجہ آصف نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے 26ویں ترمیم کی اصولی منظوری دے دی ہے۔
سینیٹ اجلاس رات 8 بجے ہونا تھا، جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس 7 بجے کے بجائے ساڑھے 9 بجے ہونا تھا جو تقریباً ڈھائی گھنٹے تاخیر سے 11 بج کر 50 منٹ پر شروع ہوا۔
سینیٹ اجلاس کا وقت اس سے قبل تین بار تبدیل ہوا۔ اجلاس کے لیے پہلے صبح گیارہ بجے پھر دوپہر ساڑھے بارہ بجے، پھر ساڑھے چھ بجے کا وقت دیا گیا جو بعد میں 8 بجے کردیا گیا تھا۔ لیکن اجلاس 11 بجے شروع ہوا۔
آئینی ترمیم: پی ٹی آئی وفد کی عمران خان سے ملاقات، فضل الرحمان سے مزید وقت مانگ لیا
ذرائع کے مطابق آٹھ بجے سینیٹ اجلاس کا وقت ہوا تو ایوان میں گھنٹیاں بجا دی گئیں، لیکن کوئی سینیٹر ایوان میں نہ پہنچا۔
سینیٹر مصدق ملک ایک دروازے سے ایوان میں آئے دوسرے سے نکل گئے، پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان بھی سینیٹ ہال میں آئیں اور دوسرے دروازے سے روانہ ہوگئیں، سینیٹر حافظ ساجد میر بھی سینیٹ ہال میں آئے اور دوسرے دروازے سے واپس روانہ ہوگئے۔
ساڑھے آٹھ بجے چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔
بعدازاں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، سلیم مانڈوی، انوشہ رحمان، اورنگزیب کاکڑ اور احمد چیمہ ایوان میں پہنچے۔ ساڑھے نو بجے تک 12 ارکان سینیٹ ایوان میں موجود تھے۔
اس سے کچھ دیر قبل اسحاق ڈار نے آکر ایوان کی صورتحال دیکھی اور لابی میں چلے گئے۔
اس موقع پر سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ کل کا سورج پاکستان کی سیاست میں استحکام لے کر آئے گا، سیاست کے استحکام کے لئے بہت لمبا سفر کیا ہے، پاکستان بہت مشکل سے ڈیفالٹ سے نکلا ہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے میڈیا گیلری کی طرف صحافیوں کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مطمئن رہیں آئینی ترمیم آرہی ہے۔
تقریباً دس بجے بلوچستان عوامی پارٹی کےتین سینیٹرز منظورکاکڑ، دنیش کمار اور ثمینہ ممتاززہری ایوان میں پہنچے۔ سوا دس بجے آزاد سینیٹر عبدالقادر ایوان میں پہنچے۔
اپوزیشن کے دو سینیٹرز ایم ڈبلیو ایم کے سینیٹر راجہ ناصر عباس اور نیشنل پارٹی کے جان بولیدی بھی ساڑھے 11 بجے کے بعد ایوان میں پہنچے۔
12 بجے کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات عطا تارڑ، وزیر پیٹرولیم مصدق ملک، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر داخلہ محسن نقوی سینیٹ پہنچ گئے۔
اجلاس شروع ہوا تو سینیٹ میں 37 سینیٹرز موجود تھے، جو بعد میں 51 ہوگئے، جبکہ وقفہ سوالات ملتوی کردیا گیا۔ پی ٹی آئی ، جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔
خیال رہے کہ آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو 64 ارکان کی حمایت درکار ہوگی ، ایوان میں اس وقت مجموعی طور پر سینیٹرز کی کُل تعداد 85 ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے 11 سینیٹرز کا انتخاب ابھی عمل میں نہیں لایا جاسکا ہے۔
دوران اجلاس سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ پانچ چھ دنوں سے مسلسل آرہے ہیں، آج آئینی ترمیم پیش کی جائیں، اب تو ہمیں کالز آرہی ہیں ہمیں آئینی ترمیم والا سینیٹر کہا جارہا ہے۔
جس پر ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ اس کو دیکھتے ہیں۔
دوران اجلاس سینیٹ میں وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب نے بینکنگ کمپنیات ترمیمی بل 2024 پیش کیا۔
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ دو ہزار آٹھ میں عالمی معاشی بحران میں کئی کمپنیاں ڈوب گئیں۔ خدانخواستہ کوئی فنانشل ادارہ مشکل میں جاتا ہے تو اس حوالے سے اصلاحات کی گئی ہیں۔ بل میں اسلامی بینکنگ کی سپورٹ کے لئے لیگل فریم ورک کو زیادہ مستحکم بنایا گیا ہے، بل میں اسٹیٹ بنک کے ریگولیٹری رول کو مستحکم کیا گیا ہے، بنکنگ محتسب کے پاس شکایات کے لیے آسانی پیدا کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بینکنگ آرڈیننس 2008 میں گلوبل کراسسز آئے، عالمی پریکٹس کے مطابق کوئی بھی ادارہ مشکل میں جائے تو اس کی ٹیکس کی رقم استعمال نہ کی جائے، اس کے لئے اصلاحات لائی جا رہی ہیں، مائیکرو فنانس بنکنگ کو نقصان سے بچانے کے لئے یہ بل لایا گیا ہے، بل میں اسلامک بنکنگ کا چیپٹر لایا گیا ہے۔
بعدازاں، سینیٹ میں بینکنگ کمپنیات ترمیمی بل 2024 منظور کرلیا گیا۔
رات بارہ بجے کے قریب سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس اجلاس کو 12 بجے سے پہلے ختم کرنا ہے، اگر مزید چلانا ہے تو اجلاس اگلے دن دوبارہ شروع ہوگا، میری درخواست ہے کہ اجلاس ملتوی کردیا جائے
سینیٹر ایمل ولی خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسپیشل کمیٹی اجلاس میں تجویز دی تھی جس کی کافی تکلیف ہوئی، چار شخصیات تاریخ کی بدبودار شخصیات ہیں، خوش قسمتی سے قیوم خان اور پرویز مشرف کی اولاد کا پتہ ہی نہیں، بد قسمتی سے ضیاءالحق اور ایواب خان کی اولاد ایوانوں میں موجود ہے، لوٹوں کا مرکز پاکستان تحریک انصاف کہلاتی ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس 11 بج کر 50 منٹ پر ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفی شاہ کی زیر صدارت شروع ہوا اور اتوار کی صبح ساڑھے 11 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا، لیکن بعد میں یہ وقت بدل کر دوپہر 3 بجے کردیا گیا۔ لیکن وزیر قانون نے کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس شام 5 بجے ہوگا۔
جبکہ سینیٹ کا اجلاس اتوار کی رات 12 بجے تک کیلئے ملتوی ہوا اور پھر اسے بھی ری شیڈول کرکے وقت دوپہر 3 بجے کردیا گیا۔
وفاقی کابینہ اجلاس کا وقت پہلے صبح نو بجے تھا، پھر ساڑھے بارہ بجے اور بعد میں ڈیڑھ بجے کر دیا گیا، لیکن اجلاس رات 12 بجے شروع ہوا۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم کے چیمبر میں ہوا، بلاول بھٹو بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد وزیراعظم کے چیمبر پہنچے۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری دئے جانے کا امکان ہے۔
اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری دیدی ہے۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ آئینی ترمیم کی رسمی منظوری ڈیڑھ بجے دن اپنے اجلاس میں دے گی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کابینہ ممبران نے اپنی تجاویز دینے کیلئے دن ڈھائی بجے تک کا وقت لیا ہے۔