Aaj Logo

شائع 19 اکتوبر 2024 05:23pm

’سنوار کے آخری لمحات روز دیکھوں گا، بچوں کو بھی دکھاؤں گا‘، غزہ باسیوں میں جوش کی نئی لہر

اسرائیلی فوج نے تین دن قبل رفح کے علاقے میں حماس کے سربراہ یحیٰی کو ایک مکان میں بمباری کے ذریعے شہید کردیا تھا۔ اُن کے آخری لمحات کی ویڈیو اسرائیلی فوج نے اس خیال سے جاری کی تھی اس سے فلسطینیوں میں خوف پھیلے گا، ان کے حوصلے پست ہوں گے اور وہ مایوسی کا شکار ہوں گے مگر فلسطینیوں کا ردِعمل اس کے برعکس ثابت ہوا ہے۔

یحیٰی سنوار کے کے بارے میں بارے میں اسرائیلی فوج کا یہ دعوٰی بالکل بے بنیاد ثابت ہوا کہ وہ جان بچانے کے لیے سرنگوں سے باہر نہیں نکل رہے۔ رفتح کے علاقے میں واقع ایک مکان میں سنوار کی موجودگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ عام فلسطینیوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے اور جان کی پروا کیے بغیر نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے تھے تاکہ عام فلسطینیوں کے حوصلے بلند رہیں۔

خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے بنیاد پر روزنامہ ٹائمز آف اسرائیل نے تسلیم کیا ہے کہ جس طور سنوار شہید ہوئے اُس سے فلسطینیوں میں خوف پھیلنے کے بجائے جوش و خروش بڑھا ہے اور وہ اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ جن پر قوم ناز کرتی ہے وہ اِسی طور اپنی جان دیا کرتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب اسرائیلی فوجیوں نے سنوار کو شہید کیا اُس سے چند لمحات قبل وہ انتہائی زخمی ہونے پر بھی اپنی چھڑی سے اُس ڈرون کو ہٹارہے تھے جو اُن کے آخری لمحات کی فلمنگ کے لیے اُن کے قریب آرہا تھا۔

غزہ کے باشندوں میں اس ویڈیو نے نئی روح پھونک دی ہے۔ وہ اس بات پر بجا طور پر نازاں ہیں کہ اُن کا ہیرو بھاگنے کے بجائے اسرائیلی فوج کے سامنے ڈٹا رہا۔ سنوار نے شہادت سے چند لمحات قبل جس پرجوش انداز سے ڈرون کیمرا کو گرانے کے لیے چھڑی گھمائی اُس سے فلسطینیوں میں غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔

ایک فلسطینی نے انتہائی پُرجوش انداز سے کہا کہ میں اپنے بچوں کو یہ ویڈیو بار بار دکھاؤں گا تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ جنہیں قوم ہیرو قرار دیتی ہے وہ کتنے شاندار طریقے سے موت کو گلے لگاتے ہیں۔

حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سنوار نے جس طور موت کو گلے لگایا وہ شاندار ہے کیونکہ انہوں نے چھپنے یا بھاگنے کے بجائے اپنی رائفل اٹھاکر اسرائیلی سپاہیوں سے مقابلہ کیا اور لڑتے ہوئے جان دی۔

غزہ کے ساٹھ سالہ عدیل رجب نے کہا کہ سنوار مسلح تھے، انہوں نے رائفل اور دستی بم تھام رکھے تھے۔ وہ لڑتے ہوئے اس دنیا سے گئے اور شہادت کی تمنا کرنے والے اِسی طور دنیا سے رختِ سفر باندھتے ہیں۔

غزہ کے تیس سالہ ٹیکسی ڈرائیور علی نے بتایا کہ اس نے سنوار کے آخری لمحات کی ویڈیو درجنوں بار دیکھی ہے اور ہر بار یہی سوچا ہے کہ مرنے کا اِس سے اچھا طریقہ کوئی نہیں ہوسکتا۔

علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر میں زندہ رہا تو اپنے بچوں کے بچوں کو بھی یہ ویڈیو دکھاتا رہوں گا تاکہ اُنہیں اندازہ ہو کہ ایک حقیقی مسلم کس طور اللہ کی راہ میں جان دیتا ہے۔

غزہ سے تعلق رکھنے والی چار بچوں کی بیالیس سالہ ماں راشا نے کہا کہ اسرائیلی فوج کبھی کہتی تھی کہ سنوار سرنگوں میں چھپ کر جان بچارہے ہیں اور کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت سے بچنے کے لیے یرغمالیوں کو اپنے آس پاس باندھ رکھا ہے مگر رفح کی ایک بستی میں اسرائیلی فوج کے حملے نے ثابت کردیا کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ سنوار بہادروں کی طرح عام لوگوں کے درمیان جی رہے تھے۔

راشا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک سچا لیڈر ایسا ہی ہوتا ہے۔ موت کو گلے لگاتے وقت انہوں نے رائفل تھام رکھی تھی، ہمیں اُن کی شہادت پر فخر ہے۔

اسرائیلی فوج کی طرف سے سنوار کے آخری لمحات کی ویڈیو جاری کیے جانے پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ اس نوعیت کے مناظر کی فلمنگ اور شیئرنگ انسانیت سوز قرار دی جارہی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ بہت سے فلسطینیوں اور دیگر علاقوں کے لوگوں کا یہ بھی تبصرہ ہے کہ شاید اب اسرائیلی فوج اس ویڈیو کو جاری کرکے پچھتارہی ہو کیونکہ فلسطینیوں میں نیا جوش و خروش پایا جارہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس ویڈیو کو دیکھ کر سیکڑوں یا ہزاروں نوجوان حماس کا حصہ بنیں۔ یہ ویڈیو حماس کے لیے بہت اہم ریکروٹنگ ٹول ثابت ہوسکتی ہے۔

Read Comments