یحیٰی سنوار کی شہادت نے ایک بار پھر حماس کو قیادت کے حوالے سے دو راہے پر کھڑا کردیا ہے۔ اس وقت تحریک کی قیادت کے لیے پانچ نام سامنے ہیں۔ خالد مشعل، محمود الظہر، موسٰی ابو مرزوق، محمد سنوار اور خلیل الحیہ میں سے کسی کو قیادت سونپی جاسکتی ہے۔
خالد مشعل اور خلیل الحیہ مجموعی طور پر اعتدال پسند ہیں۔ اگر انہیں قیادت سونپی جائے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے تعلقات میں کچھ نرمی در آئے، کشیدگی کم ہو، لڑائی رُکے اور فریقین کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔
موسٰی ابو مرزوق اور محمد سنوار کے مزاج میں غیر معمولی سخت گیری ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی حماس کی سربراہی ملی تو بہت حد تک یہ ممکن ہے کہ حماس کا رویہ اسرائیل کے لیے مزید سخت ہوجائے اور لڑائی مزید شدت اختیار کرے۔
محمد سنوار اپنے بھائی یحیٰی سنوار ہی کی طرح اسرائیل سے پیچ اپ کے حق میں کم اور مسلح جدوجہد کے حق میں زیادہ ہیں۔ حماس کی عسکری سرگرمیوں کی پشت پر وہ رہے ہیں اور اسرائیل پر حملوں میں کلیدی کردار ادا کرنے والی سرنگوں کے نیٹ ورک کو بھی وہی دیکھتے آئے ہیں۔
خالد مشعل نے غزہ سے باہر اپنی پوزیشن بہت بہتر بنائی ہے۔ وہ قطر میں مقیم رہے ہیں۔ علاقائی ممالک میں ان کا نیٹ ورک غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ اگر وہ حماس کے سربراہ بنائے جاتے ہیں تو کشیدگی میں کمی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ خالد مشعل گفت و شنید پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی سربراہی میں حماس اسرائیل سے بات کی طرف جاسکتی ہے۔ اس وقت حماس کو ایسا ہی لیڈر چاہیے جو معاملات کو مزید تباہی کی طرف جانے سے روکے۔