پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل کا کیس، عزیر بلوچ سمیت 3 ملزمان کے بیانات قلمبند کرلیئے گئے۔
رپورٹ کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت میں عزیر بلوچ و دیگر کے خلاف پولیس اہلکار سمیت 4 افراد کے اغوا اور قتل کیس کی سماعت ہوئی جہاں سماعت کے بعد ملزمان کے بیانات قلمبند کئے گئے۔uzair
عزیز بلوچ کا اپنے بیان میں قتل کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میرا اس قتل اور مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھے جھوٹے الزامات میں پھنسایا گیا ہے۔
سماعت کے دوران ملزمان شیر افسر اور ریاض سرور کے بیانات بھی ریکارڈ کیئے گئے ان کا کہنا تھا کہ ہم مرنے والے کسی فرد کو نہیں جانتے اور نہ ہی ہم نے انہیں اغوا کیا تھا ہم عزیر بلوچ کو بھی نہیں جانتے تھے صرف میڈیا پر عزیر بلوچ کے بارے میں سنا تھا۔
ملزمان کا کہنا تھا کہ ا نہوں نے عزیر بلوچ کو پہلی بار اس کورٹ میں ہی دیکھا تھا۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر فریقین کے وکلاء سے حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
پولیس کے مطابق یکم اگست 2010 کو پولیس اہلکار لالا امین ، شیر افضل خان اور غازی خان کا قتل ہوا تھا، مقتولین کو میوہ شاہ قبرستان کے پاس سے ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں کو اغوا کرکے عزیر بلوچ کے حوالے کیا تھا۔
جبکہ عزیر بلوچ نے اپنے ساتھیوں سکندر عرف سکو، سرور بلوچ اور اکبر بلوچ کے ساتھ مل کر ان اہلکاروں کو قتل کیا تھا، ملزمان نے مقتولین کو قتل کرکے لاشوں کو قبرستان میں دفنا دیا تھا۔
واضح رہے کہ عزیر بلوچ سمیت دیگر ملزمان کے خلاف تھانہ نیو ٹاؤن میں مقدمہ درج ہے۔