Aaj Logo

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2024 10:00pm

26ویں آئینی ترامیم: نئے ڈرافٹ کے اہم نکات اور تجاویز سامنے آگئیں

چھبیسویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ کی تیاری حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور اس نئے ڈرافٹ کے اہم نکات اور تجاویز بھی سامنے آگئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ یا نو رکنی آئینی بینچ کے قیام کی تجویز مجوزہ نکات میں شامل کی گئی ہے۔

’مجھ پر پریشر ہے‘، بی این پی سینیٹر نعیمہ احسان کا نم آنکھوں سے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان

ڈرافٹ میں موجود تجاویز کے مطابق آئینی بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کرے گا، آئینی بینچ کا سربراہ بھی جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا۔

تجویز دی گئی ہے کہ آئینی بینچ میں ردوبدل کا اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ کو نہیں ہو گا۔

ڈرافٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ آئینی بینچ کے تقرر کی میعاد مقرر کی جائے گی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر تین سینئیر ترین ججز میں سے ہوگا۔

ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمیشنر کے تقرر کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے کی تجویز بھی مجوزہ مسودہ کا حصہ ہے، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہ ہونے پر چیف الیکشن کمشنر کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔

ذرائع کے مطابق آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کے بعد پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ شمار ہوگا۔

آرٹیکل 48 میں ترمیم بھی مجوزہ آئینی ڈرافٹ میں شامل ہے۔

آئینی ترمیم پر پارلیمنٹ ہاؤس میں اہم سرگرمیاں، وزیراعظم ہاؤس میں سیاسی جماعتوں کے بڑے جمع

ذرائع کے مطابق وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس چیلنج نہیں ہوسکے گی، کسی ادارے، عدالت یا اتھارٹی کو صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس پر تحقیقات یا کارروائی کا اختیار نہیں ہوگا۔

وزیر قانون کا تیار کردہ ڈرافٹ

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے تیار کردہ ڈرافٹ کے مطابق حکومت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد جیسا کہ پہلے بتایا گیا صدر مملکت، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف سے منظور کردہ مشورہ کسی عدالت یا ٹربیونل اور کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز دی ہے، جس کے بعد پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ گنا جائے گا، پارٹی سربراہ اُس کے بعد کارروائی کرسکتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 111 میں بھی ترمیم کی کی تجویز ہے، جس کے مطابق اب ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات صوبائی اسمبلی میں بات کرسکتا ہے۔

حکومت نے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔

جوڈیشل کمیشن جو صرف ججز کی تقرری کرتا تھا، اب ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی جائزہ لے سکے گا۔

سپریم کورٹ میں ججز تقرری میں بھی ترمیم کی تجویز ہے۔ سپریم کورٹ ججز کی تعیناتی میں چار اسمبلی ارکان کمیٹی کے ممبرز ہوں گے، جن میں سے دو حکومت اور دو اپوزیشن کے ارکان ہوں گے، حکومت کی طرف سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیر اعظم تجویز کریں گے، اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کریں گے۔

ترمیم کے مطابق چیف جسٹس کی تعیناتی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، خصوصی کمیٹی کے 8 ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ کے ہوں گے، کُل 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق اب موسٹ سینئر جج چیف جسٹس نہیں بنے گا، تین موسٹ سینئر ججز میں کسی ایک کا انتخاب ہوگا۔

تجویز کے مطابق چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے کمیٹی کی اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس کی تعنیاتی کے لئے پہلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور موسٹ سینئر جج مل کر چُنتے تھے، ترمیم کے بعد ان دونوں کے ساتھ 15 سال تجربہ رکھنے والا ایک سینئر وکیل ہوگا، ایک وفاقی وزیر ممبر ہوگا جو وزیر اعظم کا نامزد کردہ ہوگا۔

حکومت نے آرٹیکل 184میں ترمیم کی تجویز بھی دی ہے، حکومت کی جانب سے چیف جسٹس سے سُومو نوٹس لینے کا اختیار ختم کرنے کی تجویز ہے۔ چیف جسٹس پیٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکے گا۔

حکومت نے آرٹیکل 179 میں ترمیم کی تجویز بھی دی ہے، جس کے مطابق چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے، اگرچہ 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بن گئے تو تین سال کے بعد عہدے سے ریٹائر ہونا ہوگا۔

حکومت نے آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے کی تجویز بھی دی ہے، جس کے مطابق سپریم کوٹ میں آئینی بنچ بنائی جائے گی، آئینی بنچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کئے جائیں گے۔ آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گے،

حکومت نے آرٹیکل 199 میں ترمیم کی تجویز دی ہے کہ تمام آئینی مقدمات آئینی بینچ سنے گی۔

آرٹیکل 209 میں مجوزہ ترمیم کے مطابق عدلیہ استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح نہیں کرسکتی۔

حکومت کی آرٹیکل 215 میں مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم جوڈیشل کاؤنسل کی تشکیل میں چیف جسٹس سپریم کورٹ، دو سینئر موسٹ ججز اور دو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ممبر ہوں گے تجویز۔

حکومت کی آئین کے فورتھ شیڈول میں مجوزہ ترمیم کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد 90 دن عہدے پر رہ سکتے ہیں، جبکہ نیا چیف چیف الیکشن کمشنر تعینات ہو۔

کینٹومنٹ کو لوکل ٹیکسز لینے کا اختیار دینے کی تجویز بھی ڈرافٹ میں شامل ہے۔

Read Comments