وفاقی وزیرِتجارت جام کمال خان نے پاکستان جنرز ایسوسی ایشن اور پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن سے اُن کے مسائل پر گفت و شنید کی ہے۔
پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ تجارت نے جنرز کمپنیوں کی تعداد میں تیزی سے رونما ہونے والی کمی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 1200 جِننگ کمپنیوں میں سے 400 رہ گئی ہیں۔ اس سے کپاس کی رسد کا نظام متاثر ہوا ہے اور دوسری طرف بجلی فراہم کرنے والے اداروں سے استفادہ بھی گھٹا ہے۔
وفاقی وزیرِتجارت کا کہنا تھا کہ کپاس محض پروڈکٹ نہیں بلکہ روزی روٹی ہے۔ لاکھوں افراد کے روزگار کا مدار کپاس کی اچھی پیداوار اور پروسیسنگ پر ہے۔
روزنامہ بزنس ریکارڈر کی ایک رپورٹ کے مطابق جام کمال خان کا کہنا تھا حکومت اس بات سے واقف ہے کہ (جراثیم کش دواؤں سے تیل کی کشید تک) کپاس کی پیداوار کے عمل میں بھارتی ٹیکسیشن کے نتیجے میں اس فصل کی دوسری فصلوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس طرف متوجہ ہے کیونکہ سالانہ تین سے چار ارب ڈالر کا زرِمبادلہ کپاس کی درآمد پر خرچ ہو رہا ہے۔ ملک کی کپاس کی پیداوار بڑھاکر کپاس کی درآمد کا بوجھ ختم کیا جاسکتا ہے۔
کپاس کی پیداوار بڑھانے اور شعبے کی مجموعی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے سیمینارز اور ورکشاپس کی تجویز پیش کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیرِتجارت نے کہا کہ حکومت آل پاکستان ٹیکسٹائل میلز ایسوسی ایشن اور برآمدی تاجروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کرے گی تاکہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے جامع منصوبہ تیار کیا جاسکے۔
جام کمال خان نے پاکستان جنرز ایسوسی ایشن پر بھی زور دیا کہ وہ ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ فنڈ سے فنڈنگ کے حصول کی خاطر تجاویز پیش کرے تاکہ اس شعبے کو مستحکم بناکر برآمدات بڑھائی جاسکیں۔
ڈاکٹر جسومل نے ٹیکسٹائل کے شعبے کے فروغ میں دلچسپی لینے پر وفاقی وزیرِتجارت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کبھی یہ شعبہ اِتنا کامیاب تھا کہ کپاس کو سفید سونا کہا جاتا تھا۔
انہوں نے انتباہ کیا کہ اگر ٹیکسوں کا بوجھ کم نہ کیا گیا اور بجلی کے نرخ نہ گھٹائے گئے تو کسان کپاس کی کاشت سے دور ہوتے جائیں گے جبکہ یہ شعبہ اب بھی ملک کو برآمدات کی مد میں سالانہ اربوں ڈالر کماکر دے سکتا ہے۔
ٹیکسٹائل کے شعبے کے اسٹیک ہولڈرز سے وفاقی وزیرِتجارت کی یہ ملاقات اس عزم کے ساتھ ختم ہوئی کہ پاکستان میں کپاس کے شعبے اور ٹیکسٹائل سیکٹر کی عظمتِ رفتہ بحال کی جائے گی اور حکومت کی مدد اور اصلاحات کے ذریعے اس شعبے کو ایک بڑے عالمی پلیئر میں تبدیل کیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِتجارت سے پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے وفد نے بھی ملاقات کی اور اس شعبے کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے حکومت سے معاونت کے امکان پر بات کی تاکہ فارماسیوٹیکلز کی برآمدات بڑھائی جاسکیں۔
ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے کہا کہ پاکستان میں فارماسیوٹیکلز کی 95 فیصد پیداوار مقامی ہے۔ اس شعبے میں برآمدات بڑھانے کی غیر معمولی گنجائش موجود ہے۔
چیئرمین پی پی ایم اے کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی فارماسیوٹیکلز کی برآمدات 34 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تک ہے۔ حکومت معاونت کرے تو اربوں ڈالر کی برآمدات ممکن ہیں۔
چیئرمین پی پی ایم اے نے فارماسیوٹیکل سیکٹر کے فروغ کے لیے مرکزی ادارے کے طور پر فارما ایکسپورٹ پروموش کاؤنسل کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔ اس سلسلے میں پڑوسی ممالک کے تجربے سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزیرِتجارت نے پی پی ایم اے کے وفد سے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے جامع تجاویز پیش کرے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے وزارتِ تجارت ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔