وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے مبینہ ریپ سے متعلق ایک ایسی کہانی گھڑی گئی جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ خطرناک منصوبہ ایک جماعت کی جانب سے بار بار انتشار پھیلانے، جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں ناکامی کے بعد بنایا گیا۔
بدھ کی دوپہر لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز نے نجی کالج میں ہونے والے مبینہ ریپ سے متعلق کی گئی تفتیش سے متعلق میڈیا کے نمائندوں کو آگاہ کیا جبکہ اُن کے ساتھ ایک ایسی طالبہ بھی موجود تھیں جنہیں سوشل میڈیا پر قبل ازیں اس واقعے کا ”چشم دید گواہ“ بنا کر پیش کیا گیا تھا اور اُن کے انٹرویوز بھی نشر کیے گئے تھے جس میں وہ اس واقعے کی تفصیل بتا رہی تھیں۔
پریس کانفرنس کے دوران مبینہ ”چشم دید گواہ“ لڑکی نے بتایا کہ اُن کا تعلق اس کالج کیمپس سے ہے ہی نہیں جہاں یہ مبینہ واقعہ پیش آیا تھا اور یہ کہ انہوں نے یہ پوری کہانی دوسرے کیمپس کے بچوں سے سُنی جو انہوں نے میڈیا پر آ کر کہہ دی جو وائرل ہوئی۔
یاد رہے کہ چند روز قبل پاکستان کے شہر لاہور میں ایک نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پنجاب کالج کے خواتین کے لیے مخصوص گلبرگ کیمپس میں فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ کو اُسی کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ خبر سامنے آنے کے بعد طلبا کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا جو کئی روز تک جاری رہا اور اس میں دو درجن کے لگ بھگ طلبا زخمی بھی ہوئے۔
احتجاج کرنے والے طلبا کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آئے تھے کہ کالج کی انتظامیہ مبینہ طور پر اس واقعے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس حوالے سے دستیاب تمام شواہد بھی ختم کر دیے ہیں۔
پُرتشدد احتجاج کے بعد پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جبکہ پولیس کی جانب سے اُس سکیورٹی گارڈ کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا جسے مظاہرین کی جانب سے اس واقعے کا ملزم قرار دیا جا رہا تھا جبکہ لاہور پولیس کی جانب سے طلبا اور عوام سے متعدد بار اپیل کی گئی تھی اگر اُن کے پاس اس واقعے یا ریپ سے متاثرہ بچی سے متعلق کوئی تفصیل موجود ہے تو وہ پولیس کے ساتھ شیئر کی جائے۔
بدھ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ پنجاب حکومت اُس روز سے پوری مستعدی کے ساتھ اُس متاثرہ بچی کی تلاش میں تھی جس کا نام اس واقعے میں لیا جا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ابتدا میں خبر پھیلائی گئی کہ ریپ کا یہ مبینہ واقعہ 10 اکتوبر کو پیش آیا تھا اور جس بچی کا نام لیا جا رہا تھا درحقیقت وہ دو اکتوبر سے ہسپتال میں داخل ہے کیونکہ وہ گِری تھی اور اسے چوٹ لگی تھی، وہ بچی آئی سی یو میں داخل تھی جب اسے ریپ کا وکٹم بنا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جس دن سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ پیش آیا اس دن وہ بچی ہسپتال میں تھی، کالج میں آئی ہی نہیں تھی۔ کہا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج ختم کر دی گئی، پوری کہانی گھڑی گئی، ہمارے وزیر تعلیم نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے متعلق جو بات کی وہ وہی تھی جو انہوں نے طلبا سے سُنی تھی مگر اس میں صداقت نہیں تھی۔
مریم نواز نے کہا کہ بچی ریپ کی وکٹم (نشانہ) نہیں بلکہ گھٹیا سیاست کی وکٹم بنی اور معاملہ یہیں تک رُکا نہیں بلکہ اس کے بعد ایک ویڈیو بنائی گئی جس کے 35 لاکھ ویوز تھے اور اس میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ ریپ سے متاثرہ بچی ہسپتال میں وفات پا گئی۔ آج اُس یوٹیوبر کی ویڈیو آئی، جس نے وفات والی خبر پھیلائی اور اس نے کہا کہ وہ سب غلط تھا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے مطابق میری اُس بچی کی والدہ سے بات ہوئی، وہ صدمے کی حالت میں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں غریب ہوں، میری پانچ بچیاں ہیں، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے مگر جنہوں نے میری بیٹی کے حوالے سے یہ جھوٹی کہانی گھڑی اُن کو پکڑیں اور سزا دیں۔
مریم نواز نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اس واقعے کو پھیلایا گیا اور کہانیاں گھڑی گئیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ پنجاب میں طلبا کو مشتعل اور گمراہ کر کے حکومت کے خلاف مہم چلانے کی کوشش کی گئی۔ بار بار انتشار پھیلانے اور جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں ناکامی کے بعد یہ خطرناک ترین منصوبہ بنایا۔ خاص کر ایسے وقت میں جب شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے جا رہا تھا۔ تحریک انصاف کا ایجنڈہ ہی یہی ہے کہ جب پاکستان اوپر جا رہا ہوتا ہے یہ اسے نیچے کرنے کی سازش کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم اس سازش کی طے تک گئے ہیں، اس معاملے میں بچوں کو استعمال کیا گیا اور اُن یوٹیوبرز اور صحافیوں کو استعمال کیا گیا جو اُن کے پے رول پر ہیں۔
بطور ”عینی شاہد“ اس واقعے کی تفصیلات میڈیا کو فراہم کرنے والی طالبہ سے متعلق مریم نواز نے کہا کہ ’یہ بچی اُس کیمپس کی تھی ہی نہیں بلکہ اس کے ویڈیو انٹرویو کو ایڈیٹ کیا گیا۔ میں نے فوٹیج منگوائی ہے، بیسمنٹ میں کوئی لاک نہیں۔ میں نے جب اس چشم دید گواہ بچی سے بات کی تو اس نے کہا کہ اس نے یہ سب کہانی کسی اور سے سُنی تھی اور میڈیا پر کر دی۔‘
وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ’اب پنجاب حکومت اس کیس کی مدعی بن گئی ہے اور جو جو اس معاملے میں ملوث ہوا اس کے خلاف کارروائی ہو گئی اور تمام ملوث افراد کو سامنے لایا جائے گا۔‘