لندن کی اولڈ بیلی عدالت میں سارہ شریف قتل کیس کی کارروائی کے دوران نئے حقائق سامنے آ رہے ہیں اور مقدمے کی تازہ ترین پیش رفت سے معلوم ہوا ہے کہ 10 سالہ لڑکی نے اپنے سر اور چہرے پر زخم چھپانے کے لیے حجاب پہنا تھا۔
سارہ اگست 2023 میں لندن کے جنوب مغرب میں واقع قصبے ووکنگ میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھی، جس کے بعد استغاثہ کے مطابق یہ ”سنگین اور بار بار تشدد“ کا شاخسانہ تھا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پوسٹ مارٹم کے معائنے میں پتا چلا ہے کہ سارہ شریف کو درجنوں چوٹیں آئی جن میں ”انسانی کاٹنے کے ممکنہ نشانات“، لوہے کے جلنے اور گرم پانی سے جلنا شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سارہ شریف کے والد عرفان شریف، ان کی اہلیہ اور سارہ کی سوتیلی ماں 30 سالہ بینش بتول اور لڑکی کے چچا فیصل ملک پر لندن کی اولڈ بیلی عدالت میں لڑ کی کے قتل کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ تینوں نے اپنے خلاف الزامات کی تردید کی اور ایک دوسرے پر اس کی موت کا الزام لگایا۔
پراسیکیوٹر بل ایملن جونز نے ججوں کو بتایا کہ سارہ نے جنوری 2023 میں اپنے چہرے کے زخموں کو چھپانے کے لیے حجاب پہننا شروع کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سارہ کی چوٹیں ان کے اسکول میں دو مواقع پر دیکھی گئیں، پہلی جون 2022 میں اور بعد میں مارچ 2023 میں۔
جونز نے بتایا کہ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے مختلف ’متضاد بیانات‘ دیئے اور جب اساتذہ کی طرف سے پوچھ گچھ کی گئی تو سارہ شریف نے اپنا چہرہ چھپانے کے لیے اسکارف کا استعمال کیا۔
پراسیکیوٹر نے مقتول لڑکی کے پڑوسیوں کی طرف سے دیئے گئے بیانات کا بھی حوالہ دیا جس میں کمسن بچی کی چیخ و پکار کے ساتھ مارنے کی ”اونچی“ آوازیں سنائی دیں۔ سارہ کے والد عرفان نے حال ہی میں 10 سالہ بچی کو مار مار کر قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔