لندن کی عدالت میں سارہ شریف قتل کیس کی سماعت ہوئی ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ سارہ کے والد نے بیٹی کے قتل کا اعتراف کرلیا۔
انگلینڈ میں قتل ہونے والی سارہ شریف کے والد عرفان نے اپنی بیٹی کی ہلاکت کے بعد پاکستان پہنچ کر برطانیہ پولیس کی ہیلپ لائن 999 پر فون کرکے قتل کا اعتراف کیا تھا۔ پاکستان فرار ہونے سے قبل عرفان نے سارہ کو بہت مارا تھا اور پھر اُس کے مردہ جسم کو بستر پر چھوڑ دیا تھا۔
عدالت کو بتایا گیا 10 سالہ سارہ کے جسم پر کئی فریکچر تھے، ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور انسانی دانتوں سے کاٹنے کے نشانات بھی تھے۔ عرفان شریف نے پولیس کو فون کرکے بتایا تھا کہ میں نے اپنی بیٹی کو قتل کردیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ عرفان شریف نے بچی کو قانونی طور پر سزا دی تھی مگر یہ سزا اس کی موت کا سبب بن گئی۔
گزشتہ برس اگست کو علی الصباح عرفان شریف نے سرے پولیس کو 999 پر فون کیا تھا۔ پولیس افسران کو سارہ کی لاش بیڈ روم میں کمبل میں لپٹی ہوئی ملی تھی۔ اس کی لاش دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ اسے کئی بار تواتر سے مارا پیٹا گیا ہے۔ اس کے جسم پر جلائے جانے کے نشانہ بھی تھے اور خراشیں بھی۔
لندن کی اولڈ بیلی کورٹ میں جیوری کے ارکان کے سامنے ساڑھے آٹھ منٹ کی فون کال کی ریکارڈنگ چلائی گئی۔ عرفان شریف روتے ہوئے آپریٹر سے کہہ رہا تھا کہ میں نے بیٹی کو بہت مارا مگر میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا تھا۔
جب پوچھا گیا کہ ہوا کیا تھا تو عرفان شریف نے کہا میرا خیال یہ تھا کہ سارہ تین چار ہفتوں سے بہت شرارتی ہوگئی تھی۔ میں اُسے سزا دینا چاہتا تھا مگر میں نے کچھ ایسا مارا پیٹا کہ وہ مرگئی۔
یہ کال عرفان شریف نے اسلام آباد سے کی تھی۔ وہ سارہ کی سوتیلی ماں بینش بتول اور چچا فیصل ملک کے ساتھ 9 اگست کو اسلام آباد چلا گیا تھا۔
انہیں بعد میں پاکستانی پولیس نے ڈھونڈ کر واپس لندن جانے پر مجبور کیا جہاں انہیں گرفتار کیا گیا لیکن اب تینوں ملزمان قتل کی ذمہ داری قبول کر نے سے انکاری ہیں۔
تینوں ملزمان نے 16 دسمبر 2022 اور 9 اگست 2023 کے دوران بچی کے قتل یا اُسے قتل کی منزل تک پہنچانے والے حالات کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
پراسیکیوٹر ولیم ایملین جونز کے سی نے بتایا کہ لاش کے معائنے سے ایک خطرناک حقیقت کا پتا چلا۔ عرفان شریف نے فون کال میں بیٹی کو مارنے پیٹنے کا تو اعتراف کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ اُس نے کس قدر تشدد کیا تھا، سارہ کو کس قدر زیادتی برداشت کرنا پڑی تھی اور تشدد صرف موت کے وقت نہیں کیا گیا تھا بلکہ کئی ہفتوں تک اُسے متواتر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اُسے انتہائی درجے کی سفاکی کا سامنا کئی ہفتوں تک کرنا پڑا۔
سارہ کی لاش کے پاس سے ایک نوٹ بھی ملا تھا جو عرفان شریف نے لکھا تھا۔ اس میں ویسا ہی اقبالِ جرم درج تھا جیسا فون کال میں کیا گیا تھا۔
نوٹ میں لکھا تھا کہ جو کوئی بھی اس نوٹ کو پڑھے وہ جان لے کہ میں عرفان شریف ہوں اور میں نے اپنی بیٹی کو تشدد کرکے مار ڈالا ہے۔ میں اس لیے بھاگ رہا ہوں کہ میں خوفزدہ ہوں مگر وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردوں گا اور پوری سزا بھگتوں گا۔
نوٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میرا قتل کرنے ارادہ نہ تھا مگر میں نے اُسے کھودیا۔
عرفان شریف نے نوٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ میری بیٹی مسلم ہے، کیا آپ لوگ میری بیٹی کی تدفین اسلامی طریقے سے کریں گے؟ ہوسکتا ہے میں پوسٹ مارٹم کے مکمل ہونے سے پہلے واپس آجاؤں۔