اے این پی نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں پیپلزپارٹی کے مسودہ کی حمایت کے ساتھ ساتھ اپنا مسودہ بھی جمع کرادیا، خیبرپختونخواہ کا نام تبدیل کرکے صرف ”پختونخواہ“ رکھنے کی تجویز بھی دے دی۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اے این پی کے صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے آئینی ترامیم کے حوالے سے اپنا مسودہ جمع کرادیا ہے۔
اے این پی مسودہ میں تجاویز دی گئی ہیں کہ خیبرپختونخواہ کے نام سے خیبر کا لفظ حذف کردیا جائے، پارلیمنٹ بذریعہ قانون معدنی تیل اور قدرتی گیس کے انتظام، انتظامیہ اور ریگولیشن میں وفاقی اور متعلقہ صوبائی حکومتوں کی مساوی نمائندگی فراہم کرے گی۔
اے این پی کی جا نب سے دی گئی تجویز میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 176 میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ کی کل تعداد میں تمام صوبوں کے ججوں کی تعداد یکساں ہو،آرٹیکل175بی میں ترمیم کرکے صوبائی آئینی عدالت کا قیام غیر ضروری مالی بوجھ پیدا کرنا بالکل فرضی اور مضحکہ خیز ہے۔
ایمل ولی نے کہا کہ ہائی کورٹس کو پہلے ہی متعدد ٹربیونلز کی مدد حاصل ہے جن میں صوبائی سروسز ٹریبونل، خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی اپیلیٹ ٹریبونل، خیبر پختونخوا پبلک پروکیورمنٹ اتھارٹی اپیلٹ فورم، ماحولیاتی ٹریبونل کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہائی کورٹس کے برعکس، سپریم کورٹ تمام ہائی کورٹس سے مقدمات کا بوجھ اٹھاتی ہے اس لیے ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام جائز ہے۔ تاہم، آئین میں سپریم کورٹ اور ایف سی سی کے دائرہ اختیار کی واضح شکلیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
سینیٹر ایمل ولی خان نے تجزیر دی کہ کمیشن کی تشکیل کسی نہ کسی طرح متوازن ہے کیونکہ عدلیہ اور ایگزیکٹو سے یکساں تعداد میں ارکان آتے ہیں، چیف جسٹس کی تین سال کی میعاد آئینی اصولوں کے خلاف اور امتیازی ہے لہٰذا قابل قبول نہیں۔ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر مقرر کیے جانے والے جج کے لیے 40 سال کی عمر ہائی کورٹس کے معیار اور سالمیت پر سمجھوتہ کرتی ہے۔