سینئر صحافی اور تجزیہ کاروں نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج میں شریک خاتون پر تشدد کی جعلی تصورشئیر کردی۔
گزشتہ روز کراچی پریس کلب پر ہونے والے سندھ رواداری مارچ کے خلاف پولیس نے کارروائی کی تھی اور اس دوران پولیس کی جانب سے مرد اور خواتین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان سے اہلکاروں نے بدتمیزی بھی کی۔
اس دوران ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں خواتین اہلکاروں کو مظاہرے میں شریک ایک خاتون کو گھسیٹتے ہوئے لے جارہی ہیں۔ مذکورہ ویڈیو کے بعد پاکستان سمیت دیگر ممالک میں موجود انسانی حقوق کے رضا کاروں نے پیپلزپارٹی سمیت مقامی پولیس پر کڑی تنقید کی ہے۔
اسلام آباد میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار سمیت سابق سفیر حسین حقانی بھی آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے تیار کی گئی تصویر کو پہچان نہیں سکے اور واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ لڑکی کی تصویر پوسٹ کردی۔
حامد میر نے کہا کہ زمین پر گرائی گئی قوم کی اس نہتی بیٹی کو چاروں طرف سے گھیرا ڈال کر سڑک پر گھسیٹا گیا، پوری دنیا نے کراچی میں اس تماشے کو دیکھا یہ تماشا پاکستانیوں کے حافظے میں ہمیشہ محفوظ رہے گا، اس قسم کے تماشے کرنے والے ہمیں آئینی عدالت کے فائدے سمجھا رہے ہیں یہ عدالت انہی ظالموں کو ہتھیار بنے گی۔
جس پر ایک صارف نے حامد میر کو مخاطب کیا کہ ’میرصاحب یہ فیک تصویر ہے جو آپ نے لگائی ہے، اصل تصویر یہ ہے‘۔
علاوہ ازیں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے بھی واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اسی تصویر کو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصویر سندھ کی حکومت اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے لیے صرف شرمندگی کا باعث نہیں بلکہ ان کے راستہ کھودینے کی آئینہ دار ہے۔
بعدازاں انہوں نے اسی تصویر کو ری پوسٹ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’مجھے بتایا گیا کہ یہ فوٹو اے آئی سے بنائی گئی ہے لیکن اور میں بھی بہت سی تصویریں اور ویڈیوز ہیں جن کی بنیاد پر میری رائے وہی ہے جو پہلے عرض کردی ہے۔