کالعدم دہشتگرد تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دُکی میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 21 مزدوروں کے قتل عام میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
جمعہ کو درجنوں حملہ آوروں نے پاکستان کے شورش زدہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے علاقے دُکی میں کوئلے کی کانوں پر بندوقوں، راکٹوں اور دستی بموں سے حملہ کیا، حملہ آوروں نے کچھ کان کنوں کو نیند میں ہی مار دیا اور دیگر کو قطار میں کھڑا کرنے کے بعد گولی مار دی۔
کئی خبر رساں اداروں نے رپورٹ کیا کہ حملے میں کالعدم بی ایل اے ملوث ہے، تاہم، دہشتگرد تنظیم نے ہفتے کو دیر گئے خبر رساں ایجنسی ”روئٹرز“ کو ایک ای میل میں کہا، ’بلوچ لبریشن آرمی دکی میں 21 پشتون مزدوروں کے قتل عام کی مذمت کرتی ہے، اور یہ واضح کرتی ہے کہ ہماری تنظیم کا اس المناک واقعے میں کوئی دخل نہیں ہے۔‘
افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے متصل معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں واقع جنید کول کمپنی کی کانوں پر حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے تاحال قبول نہیں کی ہے۔
دکی میں کان کنوں پر مسلح افراد کا حملہ: وزیراعظم سمیت دیگر رہنماؤں کی مذمت
یہ چند ہفتوں میں ہوئے اس طرح کے حملوں میں بدترین حملہ تھا جو پاکستان کی جانب سے یوریشین گروپ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی سے چند روز قبل کیا گیا۔
دکی میں کوئلے کی کان پر مسلح افراد کے حملے میں 21 کان کنوں کی موت کے بعد وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے صوبے میں کسی بھی فوجی آپریشن کی ضرورت کو مسترد کردیا۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی پلان کا جائزہ لینے کے لیے 15 اکتوبر کو صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
یہ صوبہ اہم کان کنی کے منصوبوں کا گھر ہے، جس میں ریکوڈک بھی شامل ہے، جسے دیو بیرک گولڈ چلاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سونے اور تانبے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہے۔ چین صوبے میں سونے اور تانبے کی کان بھی چلاتا ہے۔
حملے کے وقت، ریکوڈک کان میں حصص خریدنے کے لیے تیار سعودی عرب کا ایک وفد اسلام آباد میں موجود تھا جو ریکوڈک کا حصہ دار بننا چاہتا ہے۔