دنیا کی سب سے اونچی ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے والے لاپتہ کوہِ پیما کی باقیات 100 برس بعد مل گئیں، بتایا گیا ہے کہ کوہ پیما سینڈی آئروائن کا برف میں منجمد پاؤں برآمد ہوا ہے اور اس کی تصدیق کے لیے سینڈی کے اہلخانہ نے ڈین این اے کا نمونہ دیا ہے۔
100 سال قبل لاپتہ سینڈی آئروائن سن 1924 میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے نکلے تھے۔ سینڈی آئروائن کے ہمراہ ان کے ساتھی جارج میلر بھی لاپتہ ہوگئے تھے۔
گزشتہ ماہ ماؤنٹ ایورسٹ ایک ڈاکومنٹری بنانے والی ٹیم کے ارکان کو برف میں چھپا ایک جوتا ملا۔ تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوئی کہ ٹیم کو ملنے والا جوتا اور موزہ سینڈی آئروائن کا ہے۔
سینٹی آئروائن کے پاس کیمرہ تھا جس کی فلم ڈیولپ نہیں ہوسکی، محققین کا کہنا ہے کہ کیمرہ مل گیا تو معلوم ہوگا کہ کیا سینڈی نے چوٹی سرکرلی تھی؟
تاہم اب ان کی نشانیاں تقریباً 100 سال بعد منظر عام پر آنے کے بعد اُن کے اہلخانہ نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق محققین کو اس بات کا یقین ہے کہ جوتے اور پاؤں آئروائن کے ہی ہیں کیونکہ اس میں آئروائن کے نام کا لیبل بھی لگا ہوا تھا۔
نیشنل جیوگرافک کی ٹیم کی قیادت کرنے والے معروف ایڈونچرر جمی چن نے جوتے کے اندر انسانی پاؤں کی موجودگی کو ایک یادگار لمحہ قرار دیا۔
نیشنل جیوگرافک ٹیم کے فوٹوگرافر جمی چن نے گزشتہ ماہ ماؤنٹ ایورسٹ کے شمالی چہرے کے نیچے سنٹرل رونگ بک گلیشیر کو دریافت کیا۔ جمی چن نے وہاں سینڈی آئروائن کا جوتا دریافت کیا جس کے اندر پاؤں کی باقیات بھی موجود تھیں۔ ٹیم کو فوری طور پر معلوم ہو گیا کہ یہ جوتا سینڈی آئروائن کا ہے۔
پاکستان کے نوجوان کوہ پیما شہروز کاشف نے نئی تاریخ رقم کردی
آئروائن کے بھائی کی پڑپوتی جولی سمرز نے اس دریافت کو ”غیرمعمولی“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک وقت ایسا تھا کہ وہ اپنے دادا چچا ”سینڈی“ کی کوئی نشانی ملنے کی امید چھوڑ چکے تھے۔
اب اس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ آیا آئرون کا کیمرہ بھی مل سکتا ہے، جو ان کے ساتھ تھا اور جس میں چوٹی کی تصویر ہونے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ نیوزیلینڈ کے سر ایڈمنڈ نے 1953 میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا، اگر سینڈی آئروائن تصاویر میں ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر نظر آگئے تو یہ اعزاز ان کے نام ہوجائے گا۔