سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی انٹرا پارٹی الیکشن نظر ثانی درخواست پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے التوا مانگنے پر ناراضی کا اظہار کیا اور حامد خان کی جانب سے دائر التوا کی درخواست بھی مسترد کردی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے التوا مانگنا تاخیری حربہ ہے، کیس ملتوی کر دیتے ہیں مگر سچ تو بولا جائے، انصاف کے تقاضوں کے تحت کیس ملتوی کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی کیس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست پر سماعت کی جبکہ جسٹس محمدعلی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی خصوصی بینچ کا حصہ تھے۔
پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے گزشتہ روز فیملی مصروفیت کے باعث التوا کی درخواست دائر کررکھی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان نے آج سماعت کی التوا کی درخواست دی ہے، ایسی درخواست پہلی بار ہمارے پاس آئی ہے، سپریم کورٹ کے پاس تو ویڈیو لنک کی سہولت بھی موجود ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن ہو گئے ہیں یا نہیں؟ اس پر اکبر ایس بابر کے وکیل روسٹرم پر آگٸے۔
چیف جسٹس پاکستان نے التوا کی درخواست پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں پی ٹی آئی کے 7 وکلا تھے مگر آج ایک بھی پیش نہیں ہوا، 13 جنوری کو فیصلہ آیا مگر نظر ثانی درخواست 6 فروری کو دائر ہوئی، لگتا ہے پی ٹی آئی فیصلے پر نظر ثانی نہیں چاہتی تھی، کیا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوگئے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ 3 مارچ کو انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے جو چیلنج ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے التوا مانگنا تاخیری حربہ ہے، کیس ملتوی کر دیتے ہیں مگر سچ تو بولا جائے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کے سارے وکلا نہیں آئے اور کوئی جونیئر وکیل بھی پیش نہیں ہوا، یہ طریقہ درست نہیں، سپریم کورٹ میں ایسا رویہ نہیں ہونا چاہیئے، میں کیس ملتوی کرنے سے اتفاق نہیں کرتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ انصاف کے تقاضوں کے تحت کیس ملتوی کر رہے ہیں، التوا کی درخواست پر کیس ملتوی نہیں کررہے، حامد خان کی ذات کے لیے کیس ملتوی نہیں کریں گے، صبح بھی ہم نے التوا کی درخواستیں مسترد کی ہیں، یہ کیس 29 مئی کی مجوزہ کاز لسٹ میں سماعت کیلئے مقرر ہونا تھا، ایڈووکیٹ علی ظفر کی 4 جون تک عمومی التوا کی درخواست تھی۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ڈھولچی نے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کو بلے کے نشان کا کیس بنا دیا، ڈھولچی پہلے عدالتی فیصلے کو پڑھیں پھر تنقید کریں، باہر جاکر پراپیگنڈا کریں لیکن عدالت نہ آئیں یہ مناسب ہے۔
بعد ازاں عدالت نے انٹرا پارٹی انتخابات فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست کی سماعت 21 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
بعدازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا اور حکم نامے کی کاپی نظرثانی کیس کے وکلا، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اور درخواست گزاروں کو بھیجنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے حکم نامے میں لکھوایا کہ عدالت کے سامنے التوا کی درخواست دائر کی گئی، التوا کی درخواست میں وکیل حامد خان کی خاندانی مصروفیات بتائی گئیں، کیا خاندانی مصروفیات ہیں یہ نہیں بتایا گیا، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ بھی پیش نہیں ہوئے، 13 جنوری کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی مانگی گئی، اگر خاندانی مصروفیات تھیں تو دوسرے وکیل کی خدمات لی جاسکتی تھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھوایا کہ پریکٹس پروسیجر ایکٹ کی شق 6 کے تحت نظر ثانی میں وکیل تبدیل ہوسکتا ہے، حامد خان کی جانب سے دائر التواء کی درخواست مسترد کی جاتی ہے، انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے التوا دیا جاتا ہے، سماعت 21 اکتوبر بروز پیر کے روز ہوگی، مزید کوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔