عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے اچھے دن آرہے ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاء“ کے میزبان عامر ضیاء کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنی بہتری یادداشت کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں تین ضروری چیزیں ہیں، سب سے پہلے اللہ کی مدد، کوئی بھی کام ہو اس میں اللہ کی مدد ہوگی تو آپ کامیاب ہوں گے، دوسرے نمبر پر ہے جدوجہد، آپ اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے تو اللہ آپ کے راستے کھولے گا، اگر اللہ راستے نہیں کھولتا تو اس کا مطلب آپ کی جدوجہد صحیح نہیں ہے، تیسرے نمبر پر قرآن کہتا ہے کہ اگر آپ وک کچھ نہیں پتا تو اس سے پوچھو جو اس میں ایکسپرٹ ہے، ایکسپرٹ آپ کو بتائیں گے ٹیکنیک کے بارے میں۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ میڈیکل کالج میں تھے تو جہاں عام آدمی سات یا آٹھ گھنٹے سوتا ہے وہ پانچ سے ساڑھے پانچ گھنٹے سوتے تھے، اس وقت وہ دعوت کے میدان میں نہیں اترے تھے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے تھے ذاکر بھائی بحث کرنے میں ماہر ہیں، تو میں نے دعوت میں آںے کے بعد سوچا کہ جب اللہ نے یہ فن دیا ہے تو کیوں نہ اسے اللہ کی راہ میں استعمال کروں، میں شیخ احمد دیدات صاحب سے متاثڑ ہوکر دعوتی میدان میں آیا، میں ڈاکٹر بننا اس لئے چاہتا تھا کہ میرے نزدیک میڈیکل پروفیشن دنیا میں سب سے بہترین ہے تاکہ ہم انسانیت کی خدمت کرسکیں۔ لیکن جب پتا چلا کہ قرآن میں سب سے بہتر پروفیشن داعی کا ہے تو میں داعی بن گیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ڈکی بھائی سے ملاقات کے متعلق بیان وائرل ہوگیا
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے خواب میں یہ تو سوچ سکتا تھا کہ دنیا کا بہترین ڈاکٹر بنوں، لیکن کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ 25 لوگوں کے سامنے تقریر کروں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بتایا کہ وہ ہکلاتے تھے، لیکن ایک بار جب وہ اسٹیج پر گئے تو دیکھا کہ ان کی ہکلاہٹ چلی گئی لیکن واپس نیچے آئے وت دوبارہ ہکلاہٹ آگئی، غیر مسلم سے بات کرتے وقت ہکلاہٹ ختم ہوجاتی تھی مسلمان سے بات کروں تو پھر سے آجاتی تھی۔ یہ اللہ کی مدد تھی۔
انہوں نے بتایا کہ شیخ احمد دیدات نے مجھے کہا کہ دونوں میں سے کسی ایک فیلڈ میں ماہر بننا ہے تو دونوں میں سے ایک فیلڈ کو چننا پڑے گا، وہ میرا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ جب غیر مسلم سے دین کی بات کرتے ہیں اور اس کیاصلاح کرتے ہیں، اسلام کی طرف لاتے ہیں تو اس کا صحیح لفظ ”دعوۃ“ ہے، جب مسلمان سے دین کی بات کرتے ہیں یا کسی غلط کام کی نشاندہی کرتے ہیں تو اسے ”اصلاح“ کہتے ہیں۔
مسلمانوں کی آپس میں فرقہ واریت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم قرآن میں جو اللہ نے اور احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے ہدایات دی ہیں ان پر عمل کریں تو تناؤ ہوگا ہی نہیں، ایک پارٹی بھی عمل کرے گی جھگڑا ہوگا ہی نہیں، کوئی میرے خلاف بات کرے تو میں بولتا ہوں نو پرابلم، میرا فارمولہ ہے کہ کوئی میرے خلاف بات کرے تو میں اس کا جواب نہیں دیتا۔
بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہے ہیں، ہندو راجہ ہے تو اس کا سپاہ سالار مسلمان تھا، کوئی کوف نہیں تھا، کیونکہ اس وقت دین کا بھید بھاؤ نہیں تھا، یہ انگریزوں نے آخر ہندوستان پر راج کیا تو ان کی پالیسی تھی ”ڈیوائیڈ اینڈ رول“ (تقسیم کرو اور راج کرو)، انہوں نے ناصرف مسلمان اور ہندو کو تقسیم کیا بلکہ ہمارے ملک ہندوستان کو بھی توڑ کر نکل گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان ابھی میں ڈیوائیڈ اینڈ رول کی جو پالیسی ہے اس سے ہندوستان کو نقصان ہورہا ہے، اسلام میں یہ پالیسی نہیں ہے، اسلام میں ہے کہ بھائی چارہ ہونا چاہئیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب 2014 میں مودی اقتدار میں آیا تو یہ معاملہ اس وقت بدلا، مسئلہ تب شروع ہوا، اس سے پہلے بھی بی جے پی لیڈرز پاور میں آئے تھے، اڈوانی تھے واجپائی تھے، مسلمان کو اس وقت تکلیف اتنی نہیں، لیکن مودی کی پالیسی تھی جتنی نفرت پیدا کرو اتنا ووٹ بینک جیتیں گے، گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا اسٹیٹ اسپانسرڈ قتل کیا گیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لیکچر کے دوران فاروق ستار سوتے رہ گئے
انہوں نے کہا کہ مودی کا مقصد تھا اقتدار میں آنا اور اس نے ایک صحافی کو اس قتل عام پر کہا تھا کہ اگر اس کیلئے مجھے پانچ وقت چوراہے پر نماز بھی پڑھنی پڑی تو میں پڑوں گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک عام ہندو اور عام مسلمان ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، یہ سیاستدان اپنے ووٹ بینک کیلئے نفرت پید کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے اچھے دن آرہے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ہدایت کی کہ اگر مسلمان صرف 70 کبائر (گناہ کبیرہ) سے بچیں تو چھوٹے گناہ ویسے ہی معاف ہوجائیں گے، اکثر مسلمان سود اور رباع میں ڈوبے ہوئے ہیں،