پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان آئینی ترامیم سے متعلق معاملات پر اتفاق ہوگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان اتفاق ہوا ہے کہ کہنا ہے کہ اتفاق رائے سے تمام عدالتی اصلاحات اور آئینی ترامیم منظور کرائی جائیں گی۔ آئینی ترامیم پر مشاور کے حوالے سے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے، جس میں پیپلز پارٹی اپنی تجاویز سب کے سامنے رکھے گی۔ پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما نوید قمر کا دعویٰ ہے کہ 25 اکتوبر سے قبل آئینی ترامیم پاس کروالی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق جمعرات کو دونوں جماعتوں کے درمیان عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم کے معاملے پر مشاورت ہوئی، جس میں اتفاق رائے سے ترامیم منظور کرانے پر گفتگو کی گئی۔
پشاور ہائیکورٹ کا آئینی ترامیم کیخلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا عندیہ
خیال رہے کہ گزشتہ روز چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عندیہ دیا تھا کہ حکومت جمیعت علماء اسلام اور ان کی پارٹی کی حمایت کے بنا بھی آئینی ترامیم منظور کرانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ انہوں نے آرٹیکل 63 اے کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو اب میری یا مولانا فضل الرحمان کی ضرورت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے 18 اکتوبر کو پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اجلاس طلب کئے ہوئے ہیں۔
حکومت نے اپنے ارکان کو بیرون ملک دوروں سے بھی واپس بلا لیا ہے اور 15 اکتوبر تک ہرصورت واپس آنے کی ہدایت کی ہے۔
خورشید شاہ نے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بھی طلب کرلیا ہے جس میں آئینی ترمیم سے متعلق مشاورت ہوگی۔
خصوصی کمیٹی کا اجلاس کل صبح گیارہ بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا، ان کیمرہ اجلاس میں دیگر اہم امور پر بھی مشاورت ہوگی۔
پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی اجلاس میں بلاول بھٹوکو بھی مدعو کیا گیا ہے، اسد قیصر، ملک عامر ڈوگر کو بھی خصوصی طور پر اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے۔
جمعرات کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں ہوئی، جس میں دونوں رہنماﺅں نے مہنگائی کی شرح 32 سے 6.9 فی صد ہونے، پالیسی ریٹ میں کمی اور معاشی بہتری پر اطمینان کا اظہار کیا
دونوں رہنماﺅں نے معاشی اشاریوں میں مسلسل بہتری، بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ریکارڈ 8.8 ارب ڈالر بھجوانے پر بھی اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان اور عوام کو ریلیف ملنے کی رفتار بڑھنا خوش آئند اور نیک فال ہے۔
دونوں قائدین نے سعودی سرمایہ کار وفد کی آمد اور ایس سی او کے انعقاد کا بھی خیرمقدم کیا۔
دونوں رہنماﺅں نے اتفاق کیا یہ تمام سرگرمیاں پاکستان کے عالمی وقار اور معاشی بہتری کے لئے نہایت مثبت پیش رفت ہے۔
اس موقع پر نواز شریف نے کہا کہ وقت نے ثابت کیا 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا ہمارا درست سمت اور درست وقت پر تاریخی فیصلہ تھا، میثاق جمہوریت سے ملک میں جمہوریت کو استحکام ملا اوعر پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کرنی شروع کی، میثاق جمہوریت کے نتیجے میں دھرنے، انتشار خلفشار اور یلغار کی سیاست کرنے والی غیرجمہوری قوتوں کا تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر مقابلہ کیا۔
نواز شریف نے کہا کہ سب جمہوری قوتوں کو مل کر پارلیمنٹ کے ذریعے عدل کا نظام وضع کرنا ہے، ایسا نظام عدل بنانا ہے جس میں کسی فرد کی بالادستی نہ ہوبلکہ عوام کی رائے اور اداروں کا احترام ہو، تاکہ کسی ایک شخص کو وہ قوت اور اختیار حاصل نہ ہو جو اچھے بھلے جمہوری نظام کو جب چاہے پٹڑی سے اتار دے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فرد واحد ملک وقوم کو سیاہ اندھیروں کے سپرد کردے، آج حاصل ہونے والی معاشی کامیابیوں کی بنیاد بھی سیاسی اتحاد واتفاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ تمام قوتیں مل کر پاکستان کو معاشی سیاسی استحکام دیں جس کے نتیجے میں پاکستان خوش حال ہو۔
دوران ملاقات بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور آپ نے میثاق جمہوریت کی شکل میں ملک کو آگے بڑھانے کا تاریخی قدم اٹھایا، اس سفر کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
جس پر نواز شریف نے کہا کہ سیاسی رواداری، اخلاق، آئین و قانون اور پارلیمان کی بالا دستی کے لئے ہم ایک ہیں، اٹھارویں ترمیم نے اداروں کو مضبوط کیا تھا۔
محمد نواز شریف نے بلاول بھٹو کے سیاسی کردار کو سراہا اور شاباش دی۔
بلاول بھٹو نے نواز شریف کو کہا کہ آپ کے سیاسی کیپیٹل، وژن، سوچ اور تجربے کی بہت قدر کرتا ہوں، ملک اور قوم کو آپ کے سیاسی تجربے، سوچ اور پولیٹیکل وژن کی ضرورت ہے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان ملکی سیاسی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات سے متعلق ترامیم سے متعلق تجاویز کو نواز شریف سامنے رکھا اور کہا کہ میری خواہش ہے آئینی ترامیم سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے منظور ہوں۔
جس پر نواز شرف نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ملک کی بہتری کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کی ہر تجویز کے ساتھ کھڑے ہیں۔
بلاول اور نواز شریف کے درمیان ملکی ترقی اور خوش حالی کے لئے ملک کی سیاسی جماعتوں کے مشترکہ مقاصد ہونے پر اتفاق ہوا۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ یوسف رضا گیلانی،راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ، نوید قمر، رضا ربانی ، جمیل سومرو، شیری رحمان اور مرتضی وہاب موجود تھے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کے ہمراہ احسن اقبال، عرفان صدیقی، پرویز رشید، رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب، مرتضی عباسی ودیگر ملاقات میں موجود تھے۔
ن لیگ کے بعد پیپلز پارٹی کے وفد نےمولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی اور انہیں تجاویز تسلیم کرنے کی حالیہ صورتحال سے آگاہ کیا۔
ملاقات کے بعد شیری رحمان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے ہمیشہ اچھی ملاقات رہتی ہے، مولانا فضل الرحمان سمیت سب سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
شیری رحمان نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا کہہ رکھا ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ کیا آئینی ترمیم پچیس اکتوبر کے بعد بھی جاسکتی ہے؟ جس پر شیری رحمان نے جواب دیا کہکیوں نہیں جاسکتی۔
صحافی نے پوچھا، کیا آئینی ترمیم پر کوئی مشترکہ کمیٹی بن سکتی ہے؟ جس پر شیری رحمان نے کہا کہ سب الگ الگ کمیٹیاں کام کررہی ہیں۔
صحافٰ کی جانب سے سوال ہوا کہ سید خورشید شاہ کی صدارت میں خصوصی کمیٹی کا اجلاس کل بلایا گیا ہے کیا اس میں تمام جماعتیں اپنے مسودے رکھیں گی؟
شیری رحمان نے بتایا کہ پی پی تو اپنی تجاویز رکھے گی باقی جماعتیں رکھیں گی یا نہیں ان کی مرضی ہے۔
صحافی نے پوچھا کہ نواز شریف سے بلاول کی ملاقات کیسی رہی؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو بلاول نے آئینی عدالت کے قیام بارے شہید بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے سی او ڈی مشن کا بتایا۔
کیا میاں نوازشریف نے فوجی عدالتوں کو آئینی ترمیم میں شامل نہ کرنے کی مولانا کی تجویز مان لی ہے؟ اس سوال پر شیری رحمن نے جواب دینے سے گریز کیا۔
صحافی نے پوچھا بار بار ملاقاتیں کیوں ہورہی ہیں کیا ناکام ہو رہی ہیں ؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں اتفاق رائے کے لئے بار بار ایسی ملاقاتیں کرنا پڑتی ہیں پھر ہی اتفاق ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما نوید قمر نے آج نیوز کے پروگرا ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 25 اکتوبر تاریخ سے پہلے آئینی ترمیم پاس ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم میں ہر کوئی اپنی تجاویز شامل کروانا چاہتا ہے، حکومت نمبر وائز آئینی ترمیم پاس کروا سکتی ہے۔