ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی بات تو بہت کی جاتی رہی ہے مگر یہ عملاً بہت مشکل معاملہ ہے۔ امریکا کے صدر جو بائیڈن نے یکم اکتوبر کو کہا تھا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملے خارج از امکان ہیں۔
اسرائیل میں ایسے انتہا پسند موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے مگر اسرائیلی حکومت کے لیے ایسا کوئی فیصلہ انتہائی مشکل ہوگا۔ ایک طرف تو امریکا کی رضامندی لازم ہے اور دوسری طرف تکنیکی پیچیدگیاں بھی ہیں۔
ایران کی ایٹمی تنصیبات اسرائیل سے ایک ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر واقع ہیں۔ وہاں تک جانے اور واپس آنے کے لیے اسرائیل کے بمبار طیاروں کو دوبارہ ایندھن لینے کی ضرورت پڑے گی۔
ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ ایرانی فضائی حدود میں کارروائی کرنے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو ایسکورٹ فلیٹ کی بھی ضرورت پڑے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے اسرائیلی فضائیہ کو 100 طیارے کام پر لگانا پڑیں گے۔
فاصلہ زیادہ ہونے کے باعث اسرائیلی طیاروں کو عراق، شام اور اردن کی فضائی حدود سے گزرنا پڑے گا۔ اس کے لیے اِن تینوں ملکوں کی طرف سے اجازت کا حصول لازم ہے۔
ایران نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے کہ جو ملک اسرائیل کو حملوں کے لیے اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دے گا اُسے جوابی کارروائی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایران کی دو اہم ایٹمی تنصیبات نطنز اور فوردو میں واقع ہیں۔ نطنز میں یورینیم افزودہ کرنے کا پلانٹ بہت گہرائی میں واقع ہے۔ فوردو ایک پہاڑ کے مرکز میں واقع ہے۔
ان ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے ایسے بم درکار ہیں جو دسیوں میٹر چٹان اور مضبوط کنکریٹ کو چیر سکیں۔
اسرائیل نے گزشتہ ماہ بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو قتل کرنے کے لیے چار عمارتوں پر دو ہزار پاؤنڈ وزنی GBU-31 بم گرایا تھا۔ یہ بم ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے سے قاصر ہے۔
اس کے لیے 6 میٹر لمبا اور تیس ہزار پاؤنڈ وزنی بم درکار ہے جو امریکا کے پاس ہے۔ یہ واضح نہیں کہ یہ بم اسرائیل کے پاس بھی ہے یا نہیں۔ یہ بم ایف سولہ، ایف پندرہ اور ایف پینتیس نہیں لے جاسکتے۔
اسرائیل تیل کی تنصیبات کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ کسی بھی بڑے حملے کی صورت میں بڑی علاقائی جنگ چھڑ جانے کا خدشہ توانا ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا تو بھی بھرپور جواب ملنے کا امکان ہے۔